|
الزام لگانا اورقسم کھانا
سوال 792. کیااعضاءکوعمدا ً زخمی کرنے کا قصاص، قصاص نفس کی طرح قسم کھانے کے ذریعہ ثابت ہوسکتا ہی؟یا چونکہ قسم ہونے کے خلاف اصل وقاعدہ ہی( جیسے کہ کہا جاتا ہی) فقط دیت کو ثابت کرنے میں کفایت کرتی ہے نہ کہ قصاص کو؟
جواب: قسم کے ذریعہ قصاص نفس اورقصاص اعضاءاورجان بوجھ کر لگائے گئے زخم کو ثابت کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے اورمسئلہ اجماعی اورمنصوصی ہے لیکن اعضاءکے متعلق قسم کی مقدار کے بارے میں فقہاءکے درمیان اختلاف نظر ہے ہر چند اشبہ اگر نہ کہیں تو اقویٰ چھ عدد قسمیں ہیں اگر اس کی دیت کا مورد دیہ ¿ نفس ہی:جیسے چھ قسموں سے ناک کی دیت یا قصاص ثابت ہے اور اگر چھ قسموں کی نسبت کمتر ہے تو کچھ ہی کم دیت حساب کی جائے گی. سوال 793. ایک شخص نے کسی مرد کواس کے گھر میں اپنی کمر پر لگے اسلحہ سے قتل کردیا ہے اورگھر میں لاش پڑی ہوئی ملی ہے تحقیقات پر قاتل نے بتایا کہ مقتول نے خود کشی کی ہے اورچونکہ گھر میں صرف قاتل کے افراد حاضر تھے، مسلماً قاتل کی حمایت میں گواہی دی لیکن تمام قرائن اورموضوع کی کیفیت، خود کشی کو رد کرتی ہے. میںولی دم ہوںاوران دونوں افراد کے درمیان منافع میں تضاد ماضی کی دھمکیاں بھی پیش نظر ہے نیز اگر خودکشی ہوتواس کی بھی علت ہوتی ہے اوردوسرے دلائل کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ اس شخص نے میرے بیٹے کوقتل کیا ہے، عدلیہ نے اس موضوع کو الزام کے موارد میں سے خیال کیا ہے اب سوال یہ ہے کہ حضرت اما م قد س سرہ نے ”تحریر الوسیلہ “میں ساتویں مسئلہ میں اورشرع مقدس اسلام کے احکام میں فقہائے عظام کے فتاویٰ کے پیش نظر ولی دم(وارث)کو قسم کھانے کاحق حاصل ہے یا ملزم کوحاصل ہی؟ جواب: قسم کھانا اصل اورقاعدہ کی بنا پر الزام کے مورد میں ثابت ہے یعنی ایک ایسا مورد کہ جس میں امارات اورقرائن سے قاضی کوگمان اور ایسا ظن غالب کہ جو ملزم کے بارے میں قتل کے الزام متعلق علم کے قریب ہو حاصل ہوجائے اس طرح کہ اگر یہ باب خون، قصاص اورقاتل کوقتل کرنے کا باب نہ ہوتا توقاضی خود جرا ¿ت کر کے تمام قرائن وشواہد کو مدنظر رکھ کر حکم صادر کرسکتا تھا، علم سے نزدیک ظن غالب ادلہ الزام قدر متیقن کی منزل میں ہیں اورظن مطلق کی نسبت ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور چونکہ قسامہ (قسم کھانا) قواعد کے برخلاف ہے لہذا ”قدر متیقن پراکتفا کی جاتی ہی“اور اس حکم میں محلہ، گھر اوروہ گاو ¿ں کہ جو محصور ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے صرف ملزم کا یہ دعویٰ کہ میں فلاں وقت کہ جب قتل کاواقعہ پیش آیا ہے موقع واردات پر نہیں تھا، سنا نہیں جائے گا اوراگر ایسے احتما لوں پر اعتماد کیا جائے تو ظاہراً قسم کھانے کے لئے کوئی مورد نہیں ہے مثلاً :دودلیل آپس میں تعارض کریں جیسے کہ لاش کے قریب ایک شخص خون آلود آلہ ¿ قتل کے ساتھ حاضر ہی، نیز اسی کے پاس پھاڑ کھانے والا بھیڑیا بھی موجود ہے جیسے ان موارد میں کہ جہاں حجت شرعی کے ذریعہ ثابت ہو کہ ملزم قتل کے وقت موقع واردات پر نہیں تھا اس طرح کہ اس کا تحقق عادی طور پرمحال ہوتوایسے موارد میں برخلاف دلیل اورگمان نہ ہونے کی وجہ سے قسم نہ کھائی جائے گی. امام قدس سرہ کی کتاب «تحریرالوسیلہ“ میں ساتواں مسئلہ ایسے ہی موارد پرناظر اورایسی ہی مثالوں کے لئے کہ جوذکر ہوئیں، بیان ہوا ہے لیکن ملزم کا گھر میں نہ ہونا اس معنی میں کہ وہ دوسرے کمرے میں موجود ہی، صرف اس کے ادعا کے لئے ہے لیکن قاضی کا گمان وظن اورمتہم کے قاتل ہونے پردیگر قرائن وشواہد، ثابت اورمتحقق ہیں تو ایسا مورد قسم کھانے کے موارد میں سے ہے اورایسے احتمالوں پر توجہ نہیں دی جاتی ہی. علامہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ قسم کے ساقط ہونے کے موارد کو محصور کرتے ہوئے چھ مورد شمار کرتے ہیں اوریہ مورد ان میں سے نہیں ہی. قاضی کو خیال رکھنا چاہئے کہ شریعت میں قسم کھانے کو آدم کشی اورقتل میں فریب اورمکاری کوروکنے کے لئے قرار دیا گیا ہے اس معنی میں کہ دوسرے لوگ فکر نہ کریں کہ اگر کسی کووہ قتل کریں تو شرعی شواہد اورقاضی کے واقعہ کی صحیح اطلاع نہ رکھنے کی وجہ سے قصاص سے بچ جائیں گے چونکہ قسم کے قانون کے سبب، قتل سے معمولاً انسان ڈرتا ہے اوردوری اختیار کرتا ہے کہ کہیں تمام تر چالاکیوں اورفریبکاریوں کے باوجود، اس کے قتل کا ارتکاب قسم کے قیام کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے کہ جس کے بعد اس کا قصاص کیا جائے کے موارد میں سے قرار پاتا ہے اوراس کا قتل کرنا ثابت اورپھر قصاص پر محکم ہوجاتا ہی.
|