Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: میراث کے متفرق مسائل

میراث کے متفرق مسائل مسئلہ 769. میت کا قرآن، انگوٹھی، تلوار اوروہ لباس جو اس نے پہنا ہے یا پہننے کے لئے سلایا ہے یاخریدا ہے چاہے اس نے نہ پہنا ہو اسے ”حبوہ “کہتے ہیں اوربڑے بیٹے سے مختص ہے جو اس کی میراث کا حصہ ہے اوراگر میت کے پاس یہ چار چیزیں ایک سے زیادہ ہوں مثلاً قرآن دو ہوں، انگوٹھی دو ہو چنانچہ استعمال ہورہی ہے یا استعمال کے لئے فراہم کی گئی ہے نیز جس طرح مرقوم ہوا ہے اسی طرح ہے یعنی بڑے بیٹے سے مخصوص ہے اوراس کی میراث کے حصہ میں شمار ہوگی.
مسئلہ 770. ایک عورت نے شادی کی ابتداءسے ہی شوہر کے ساتھ کام کیا اوراس سے پیسہ بھی کمایا ہے لیکن اس کا شوہر بغیر کسی وصیت کے انتقال کر گیا تو کیا عورت کو صرف اس کی میراث کاحصہ ملے گا یا شوہر کے مال سے بھی اسے ملے گا؟یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس مال کو فراہم کرنے سلائی اورقالین بننے میں زوجہ نے شوہر کی مدد کی ہی؟
جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ عورت نے اپنی مدد شوہر کو ہبہ کردی ہے اورجو کام انجام دیا اس
میں کوئی عوض واجرت درکار نہیں تھی تو شوہر کے ترکہ سے سوائے میراث کے کوئی اورحصہ اس کو نہیں ملے گا اوراگر ثابت نہ ہوتو اس کام اورعمل کی جو اجرت ہوتی ہے وہ اس کی مستحق ہے اوراس چیز کی طلبگار ہے جو اس نے قرض دیا ہے اوراس کی مدد کی ہے ناگفتہ نہ رہ جائے کہ روز مرہ کی زندگی کا تکلف، شوہر کی بلا عوض مدد، عوض لینے سے دستبردار ہونا اوراسے مفت سمجھنے کی غفلت بعید نہیں ہے اورغفلت اجرت کو ساقط نہیں کرتی چونکہ بہرحال اصل، زوجہ کے عمل کااحترام ہے اورجو مرحوم شوہر کو مال دیا ہے اورمدد کی ہے اس کی بہ نسبت شوہر کااسے عوض ادا کرکے بری الذمہ ہوجانا ہے تاکہ اس کے برخلاف ثابت ہو:ان بقیہ امور کی طرح جیسے افراد ایک دوسرے کے لئے انجام دیتے ہیں چونکہ اصل عمل کا احترام ہی.
سوال 771. ایک مسلمان شخص دنیا سے رخصت ہوگیا لیکن اس کے بعض ورثہ کافر ہیں توکیا جو کافر ہیں وہ مسلمان فرد سے میراث پائیں گی؟
جواب: کافر یعنی منکر اصول عقائد علم رکھنے کے باوجود اگر ان کاانکار کر ے تو اسے مسلمان کی میراث نہ ملے گی اگرنہ کہیں کہ غیرمسلمان سے انکار کے بغیر بھی اسے میراث نہ ملے گی، چونکہ جس طرح شیخ صدوق نے اپنی کتاب”من لایخضرہ الفقیہ“میں فرمایا ہے کہ:کافر کا میراث نہ پانا اس کے کفر کے لئے سز ا ہے اوراس لحاظ سے ترکہ چھوڑنے والے کے مسلمان وغیر مسلمان (جو علم کے ساتھ منکر نہ ہو)میں کوئی فرق نہیں ہی.
بہرحال کافر(کے اصول عقائد کاعلم رکھنے کے باوجود اس کاانکار اوراس سے دشمنی کی بنا پر) مسلمان سے میراث نہ پانے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں تھا اور نہیں ہے اوراس پر بہت سی مفید روایتیں دلالت کرتی ہیں اوراس مسئلہ میں اجماع کے ذریعہ جو بات یقینی ہے یہی ہے، وبالجملہ کفر میراث کے لئے ویسے ہی مانع ہے جیسے قتل مانع ہے جیسا کہ اصحاب کا بھی یہی خیال ہے اورغیر مسلم یعنی معذور اورغافل غیر مسلموں کے گروہ پر ان کی غفلت کی بنا پر کچھ ڈالا نہیں جاسکتا اورنہ ہی
مواخذہ کیا جاسکتا ہے چونکہ غافل پرفریضہ کرنا نہ صرف یہ کہ ایک محال امر کے لئے حکم دیاجاتا ہے بلکہ خود تکلیف (فریضہ) محال ہے یا پھر اگرچہ ان کی بہ نسبت قانونی وظیفہ محال نہیں ہے اورمحال ہونا ذاتی اورجزئی وظیفہ سے مخصوص ہی:لیکن قطعاً وہ معذور ہیں جیسا کہ ہمارے استاد امام خمینی قدس سرہ کا خیال ہے کہ مسلمان سے میراث پانے میں ان کے غیر مسلم ہونے کی مانعیت میراث کے اطلاق وعموم کے خلاف ہے اورتقریباً تیس روایتوں میں سے جنہیں شیخ نے تہذیب میں (جوکہ چارروائی کتابوں میں سب سے جامع فقہی کتاب ہی)شاید دوروایتیں ہیں جو اس طرح کے غیر مسلم کو اپنے اندر شامل کرلیں وگرنہ باقی روایتیں کفار کے متعلق اسی معنی میں ہیں جو کہ گذر گیا یا پھر کفر اورعدم اسلام کی مانعیت کے جزئی احکام کو بیان کررہی ہوتی ہیں نہ کہ اصل مانعیت کو بیان کرنے کی منزل میں ہوتی ہیں اوران ساری روایتوں اورعلتوں کے مقابل جنہیں محدث شیخ صدوق قد س سرہ نے اپنی کتاب”من لایخضرہ الفقیہ“ میںبیان کیا ہے دو یا تین روایتوں سے استدلال کے لئے مذاق حدیث مانع ہے اوراگر نہ کہاجائے کہ وہ سب بھی غیر مسلم، کافر اوران غیر مسلمانوں سے مخصوص ہے جواخروی عذاب کے مستحق ہیں لااقل ایسے فتوے پر ان کے لئے اعتماد مشکل ہی نہیں بلکہ ممنوع ہی.
بہرحال اس فرض کی بنا پر کہ وہ (روایتیں دلالت کرتی ہیں بلکہ بقیہ روایات بھی مطلقاً عدم اسلام کی مانعیت پردلالت کرتی ہیں تو بھی یہ حجت اوراعتماد کے قابل نہیں ہے میری نظر میں تبعیض اوراس قانون کے ظالمانہ ہونے کی بنا پریعنی غیر مسلمان کا مسلمان سے میراث نہ پانا نہ کہ اس کے برعکس یعنی غیرمسلمان سے مسلمان کا میراث پانا، چونکہ اس طرح کی روایتیں قرآن کی مخالف ہیں لہذا دورپھینک دی جانی چاہئے اورکیونکر قرآن کے خلاف نہ ہوں جبکہ قرآن کی بہت سی آیات میں ظلم سے روکا گیا ہے اورکیونکر ایسا نہ ہو جبکہ قرآن فرماتا ہی:
تمت کلمة ربک صدقاً وعدلاً، (تمہارے رب کی بات(کلمہ)جوسچی
اورعدالت سے بھرپور تھی تمام ہوگئی)اوردوسری آیت میں ہی:
وماربک بظلام للعبید(تمہارا پروردگار بندوں پرظلم نہیں کرتا)اورسورہ یونس کی آیت نمبر۴۴ میں فرماتا ہی:
ان اللہ لا یظلم الناس شیئاً ولکن الناس انفسھم یظلمون(بے شک خدا لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں)اوراس مسئلہ میں اگرچہ مذید بحث کی ضرورت ہے لیکن صرف اسی پر اکتفا کی جاتی ہے اوراقویٰ یہ ہے کہ علم کے باوجد عمدی کفر مانع ہے نہ کہ عدم اسلام.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org