Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بچہ ساقط کرنا

بچہ ساقط کرنا مسئلہ ۶٢۴. اگر بچہ کا وجود مان کی موت کا سبب بنے مثلاً اسے کوئی ایسا مرض ہو جو ماں کو سرایت کر جائے اور ماں کی موت کا سبب ہو تو ماں کو موت سے بچانے کے لئے جبکہ صرف یہی ایک راستہ ہو تو ماں حتی بچہ میں روح داخل ہونے کے بعد اسے ساقط کر سکتی ہے البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ عمداً اور براہ راست ساقط کرنا مشکل کے حل کی سب سے آخری صورت قرار پانی چاہئے اورجب تک ممکن ہے موت اوربچہ کو ساقط کرنا ماں کے دوا کھانے کے ذریعہ اورمعالجہ کے ہمراہ عمل میں آنا چاہئے.

مسئلہ ۶٢٥. جب رحم مادر میں بچہ کا رہنا ماں کے لئے مشقت وحرج اور ناقابل تحمل ہو تو اس میں روح داخل ہونی(یعنی چار مہینے) سے پہلے اسے ساقط کرنا جائز ہے اور روح داخل ہونے کے بعد جائز نہیں ہے.

مسئلہ ۶٢۶. اگر ماں کی زندگی بچہ کو خارج کرنے اور اس کی موت پر متوقف ہو تو ایسے بچہ کو چار مہینے سے پہلے خارج کرنا جائز ہے اور اس کے بعد جائز نہیں یہاں اگر ماں کسی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ جس کا معالجہ نہ کرنا اسکی موت کا باعث ہوگا تو وہ اپنا علاج کر سکتی ہے اوریہ بھلے ہی بچہ کی موت کا سبب کیوں نہ بنے اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس میں روح آگئی ہو یانہ آئی ہو.

مسئلہ ۶٢٧. اگر رحم میں بچہ کو باقی رکھنا بچہ اور ماں دونوں کی موت کا سبب ہو اور بچہ کو ساقط کرنا ماں کے زندہ رہ جانے کا باعث ہو(بھلے ہی یہ کام بچہ کی موت اور اسے باہر نکالنے پر تمام ہو) تو جائز ہے اس میں بچہ کے اندر روح پیدا ہونے (یعنی چار ماہ ہو جانے)یا پیدا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہی.

مسئلہ ۶٢٨. اگر یہ تشخیص دی جائے کہ نمو اور ولادت کی صورت میں بچہ ناقص العضو یا ناقص الخلقت ہو گا اور یہ امر ماں باپ کے لئے زحمت، حرج اور شدید فکری وروحی تکلیف کا باعث ہو اور بچہ میں روح کے داخل ہونے سے پہلے(جو قدر مسلم چار مہینہ سے پہلے ہے)تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا سقط حرام ہے البتہ سقط کرنے والے کو دیت دینی ہو گی لیکن روح داخل ہونے کے بعد خون اور قتل کا مسئلہ ہو جاتا ہے اورکسی بھی صورت میں سقط کرنا جائز نہیں ہے.

سوال ۶٢٩. اگر بچہ کے اندر روح داخل نہ ہوئی ہو تو کیا اسے ساقط کرنا جائز ہے؟
جواب: بچہ کو ساقط کرنا مطلقاً حرام ہے بلکہ شک کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے یعنی نطفہ کے انعقاد کے احتمال یا حیض کے بند ہو جانے کے بعد دوا وغیرہ کھانے کے ذریعہ ایسا نہیں کیا جاسکتا یہ حکم گرچہ قواعد کے برخلاف ہے لیکن اس پر نص موجود ہے اورصحیحہ رفاعہ اس پر دلالت کرتی ہے لیکن ماں سے خطرہ کو دور کرنے کے لئے ماہر شخص کی رائے اور ناقابل تحمل حرج کو مدنظر رکھتے ہوئے روح کے داخل نہ ہونے کی صورت میں حرام نہیں کہا جاسکتا اورقاعدہ نفی حرج، حرمت کو رفع کر دیتا ہے.

سوال ۶٣٠. اگر بچہ کی ذاتی وجوہات جیسے نقص یا معلولیت وغیرہ کی وجہ سے ماں کی سانس کے لئے مشکل پیدا ہو جائے اوراس کی موت کے خطرہ کے احتمال کا باعث بن جائے اور ڈاکٹر ماں کے علاج اور اس سے موت کے احتمال کو رفع کرنے کو بچہ کے ساقط کرنے میں منحصر قرار دیں اور فرض یہ ہو کہ بچہ کا ساقط ہونا اس کی موت کاسبب نہ ہوگا بلکہ چونکہ بچہ چھ ماہ کا ہے اس لئے انکیوبیٹر میں اس کو رکھا جائے گا اوراسکے زندہ رہنے اورمر جانے دونوں کا ہی احتمال ہے تو کیا ایسا معالجہ جائز ہے یا حرام؟
جواب: سوال میں جو فرض کیا گیا ہے کہ بچہ کو زندہ پیدا کیا جائے اوراسے (رحم سے ) باہر نکالنا علمی شرائط کی بنا پر اس کی قطعی موت کا باعث نہیں ہے اورماں کی جان بچانا اور اسے موت کے احتمال سے باہر نکالنا بچہ کو رحم سے خارج کرنے پر موقوف ہے ظاہراً اس طرح کا معالجہ جس کے متعلق ڈاکٹروں نے رائے دی ہے جائز ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے اورماں کے اوپر لازم نہیں ہے کہ خود کو اس کے رحم میں رہنے پر فدا کر دے بلکہ رحم کے باہر اس کی حفاظت ہو گی اس سے اس کے لئے موت تجویز نہیں ہوئی ہے.

سوال ۶٣١. امراض نسواں کی ماہر ڈاکٹر کسی عورت کے حاملہ ہونے کے متعلق خطرہ کا اعلان کریں( یعنی جسمی و جانی خطرہ ہو اور بچے کے لئے مشکلات کا احتمال ہو)تو کیا یہ اضطراری موارد کی تعیین کیلئے کافی ہے؟
جواب: ان کا خطرے کے بارے میں اعلان کرنا چونکہ حداقل اس طرح کے خطروں کے احتمال کا سبب ہے لہذا کفایت کر ے گا اطمینان تو بدرجہ اولیٰ ہے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org