Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اسباب قصاص

اسباب قصاص سوال 782. ایک شخص نے ایک لڑکی کے سا تھ تجاوز کیا اوریہ تجاوز کرنے والا (زانی) لڑکی کے بھائی کے ہاتھ قتل ہوگیا اس کے متعلق حکم شرعی بیان فرمائیں؟
جواب: چونکہ قتل عمداً تھا اس لئے قاتل کے لئے شرعی حدقصاص ہی یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ یہ حق الناس ہے لہذا اولیائے دم(ورثائ) کے معاف کردینے اوران کے راضی ہوجانے کی صورت میں ساقط ہوجاتا ہے.

سوال 783. اگر کوئی شخص صاحب خانہ کی عدم موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں داخل ہو اوراس کی لڑکی کے ساتھ تجاوز کرنا چاہے لیکن صاحب خانہ کا فرزند جو لڑکی کا بھائی ہے اس کی پٹائی کردے جس کے زخموں کی تاب نہ لا کر وہ مر گیا، آپ سے درخواست ہے کہ قاتل کے متعلق شرعی حکم بیان فرما دیں؟
جواب: اگرچہ جس قتل کا بھی عمدی ہونا ثابت ہو جائے قصاص کا باعث ہے اورمقتول کے ورثہ کے لئے ان کا حق ثابت ہے لیکن جو دوسروں کی ناموس یعنی ماں، بہن اوربیٹی کے ساتھ خیانت کا قصد رکھتا ہے اگرصاحب ناموس کے دفاع کرنے کی صورت میں قتل ہو جائے تو اس کا خون بیکار ہے اورقاتل پرحتی دیت بھی واجب نہیں ہے کیونکہ دوسروں کی ناموس پر حملہ کرنے والوں کا خون ہدر ہے البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب قاتل کے لئے سوائے مقاتلہ کے کوئی اورصورت نہ ہو لیکن اگر خیانت کرنے والا دوسروں کی ناموس پرحملہ ور نہ ہو بلکہ ناموس کی رضایت سے ہو مثلاً بھائی یا باپ یا شوہر مد مقابل کے زنا کرنے کی نیت کی طرف متوجہ ہو جائے اوردفاع اورمنکر کو روکنے کے لئے اس شخص کے سامنے آجائے اوروہ مقابلہ کرے تو گرچہ ایسے شخص کا وظیفہ قتل کی حد تک روکنا نہ تھا اورنہی عن المنکر میں قتل کے لئے شرعی اورقانونی اجازت شرط ہے لیکن اس نے مذہبی احساس اورانسانی غیرت کی وجہ سے ایستادگی کی جس کے نتیجہ میں مدمقابل قتل ہو گیا ظاہراً قصاص بعض پہلوو ¿ں کی وجہ سے ثابت نہیں ہی:
١. ادلہ قصاص کااس سے بے تعلق ہو جانا اورقصاص اس طرح کے قتل میں کہ جوذاتی دشمنی اوردنیاوی اغراض کے لئے نہ ہوں اور اس کا ایسے معمولی قتل کی طرف متوجہ ہوجانا جو کہ ذاتی اغراض کی خاطر انسانوں کی جان کے تلف ہونے اورخلل کا باعث ہے تو ان میں قصاص بھی حیات کا باعث ہے نہ کہ اس جگہ پر جہاں تجاوز اورخیانت کے قصد سے ہو کہ اس جگہ پر اگر متقول کا خون بیہودہ ہونا معاشرہ کی حیات کا باعث نہ بھی ہوتوحداقل اس کے قاتل کا قصاص اس حیات کا موجب نہیں ہی.
٢. مندرجہ موارد میں مقتول کا مظلوم نہ ہونا اورآیت کریمہومن قتل مظلوماًکا نتیجہ جو کہ اولیائے دم(ورثہ) کی ولایت کے لئے سب سے عمدہ دلیل ہے وہ اسے اپنے اندرشامل نہیں کرتی.
٣. ایسا قتل جو کہ جاہل تھا اوریہ خیال کرتا تھا کہ اس کا قتل اس کے لئے جائز ہے اس کے قتل کی حرمت حدیث رفع اورسعہمالا یعلمونکے حکم کے تحت ختم ہوگئی اوربالآخر چونکہ وہ خود نادانی میں مبتلا ہے اوراس کے موضوع(یعنی ایسے کا قتل کرنا جو کہ حرام ہی)سے بھی جاہل ہے اس لئے قصاص بھی مرفوع ہے اورکہا نہ جائے کہ یہ مقتول کے لئے خلاف امتنان ہے کیونکہ فرض یہ ہے کہ وہ زنا، ناموس پرحملہ آور ہونے کا قصد رکھتا تھا لہذا عدم قصاص کا حکم اس کے قاتل ہونے کی وجہ سے شرعی اورعقلائی فضا میں خلاف امتنان نہیں ہی.
اس کے علاوہ یہ کہ دیت سے اس کا جبران ہوجاتا ہے اورجگہوں پر حدیث رفع کیونکر جاری نہ ہوگی؟ جبکہ دارالحرب(سرزمین کفر) میں اگر کوئی گمان کر ے کہ یہ کافر حربی ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرڈالے تو قصاص نہ ہونے پر سب کااتفاق ہے اوراکثر لوگوں کے بقول دیت بھی نہیں ہے، بنا بر اصل.
۴. مذاق فقہ اورحکم شارع سے استفادہ ہوتا ہے کہ عزت وناموس پرتجاوز گھروں پرحملہ اورچوری کرنے والے کاخون ہدر اورمعاف ہے اورجو راستہ میں مسلمانوں کے قتل یا زخمی ہونے کا باعث بنے گرچہ قتل یا زخمی کرنے کی نسبت یقینی نہ ہو لیکن اس کی غلطی و لاپرواہی کی وجہ سے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہی.
بہرحال بعید ہے کہ اسلام کسی ایسے شخص کے بارے میں قصاص کاحکم دے کہ جوخیر اورنہی عن المنکر کی نیت رکھتا ہو اورمذہبی اورغیرت انسانی کے احساسات کے تحت قرار پایا ہو اگر ذکر شدہ وجوہات عدم قصاص (جو کہ اصل کے مطابق ہی) کا باعث نہ ہوں تو حداقل، خون کے معاملہ میں شک وشبہ اوراحتیاط کا باعث ہی.
سوال 784. اگر قتل عمد کے اثبات کے تمام شرائط فراہم نہ ہوں اورقتل عمد مشخص نہ ہوتو کیا قصاص کاحکم مورد اشکال ہی؟
جواب: خون کے مسئلہ میں احتیاط کے پیش نظر جب تک اس کا عمدی ہونا ثابت نہ ہوقصاص کاحکم نہیں دیا جاسکتا اورصرف دیت پراکتفا کرنی چاہئی.

سوال 785. اگر کوئی مسلمان عمداً یابطور شبہ عمد (جس پرعمدی ہونے کا شبہ ہو) یا صرف غلطی کی وجہ سے کافر کے قتل کا مرتکب ہوا ہوتو کیا اس کا قصاص کرنا چاہئے یا اسے دیت دینی ہوگی؟
جواب: کافر اورہر غیر مسلمان جو اسلامی شہروں میں اس کے قوانین اوردستور کے مطابق محترم شمار ہوتا ہے یا غیر اسلامی شہروں میں بین الاقوامی معاہدہ کے مطابق اسلامی حکومتوں کے نزدیک متقابل محترم کا حق رکھتے ہیں ان کی جان اوربدن ان کے مال کی طرح معاہدہ کے مطابق محترم ہیں اوران کی دیت اورقصاص مسلمانوں کی طر ح ہے اورمذکورہ احکام بعض روایتوں کے استناد اوردلیلوں کے اطلاق کے تحت ہیں گرچہ اس کے برخلاف فتوے اورروایت بھی موجود اورمعروف ہیں لہذا اگر کوئی مسلمان غیر مسلمان جو کہ محترم ہے اس کو عمداً قتل کردے تو اس کے لئے قصاص کا حکم ہے اوراس کی دلیلیں اسے اپنے اندر شامل کرلیتی ہیں اورقاتل کے اولیائے دم اسے قتل کرسکتے ہیں یا معاف کر کے دیت لے سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو عمداً قتل کری.
مجموعی طور پرقصاص میں معیار خون کی حرمت ہے مہ کہ قومیت اورعقیدہ. ہروہ بددماغ جس میں قساوت پیدا ہو جائے اور بے گناہ کاخون بہائے اس کے ساتھ بھی وہی کیا جانا چاہئے یااولیائے دم (ورثہ) معاف کردیں کیونکہ یہ آیت:من قتل نفساً بغیرنفس فکانما قتل الناس جمیعاًاطلاق رکھتی ہے اورمحترم نفس اورجان کو اپنے اندر شامل کرلیتی ہی.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org