|
قاضی کی شرطیں
سوال 772. فریقین کے تقریباً تمام فقہاءقاضی کے لئے اجتہاد کو شرط سمجھتے ہیں اورقاضیوں کی ملازمت کے قانون میں بھی غیر ضروری شرائط میں اجتہاد کوقاضی کے لئے لازم شمار کیا جاتا ہے اس بات کے پیش نظر کہ بنیادی آئین کی دفعہ ٧۶١ کے مطابق اس کا شرع مقدس کی عدم مغائرت پررہبر انقلاب کی تائید بھی ہو چکی ہی(البتہ بنیادی آئین سے باخبر افراد اورمحترم شیعہ علماءکی تائید کے بعد) قاضی کاوظیفہ ہے کہ سب سے پہلے جھگڑے اوراختلاف کا حکم بنائے گئے قانون میں تلاش کرے اورقانون کے ساتھ تعارض کی صورت میں اپنی رائے کی بنیا دپر حکم کرنے سے پرہیز کرے اورجس طرح ملک کی تمام عدالتوں میں اختلاف ومقدمہ کے حکم کی روش یہی ہے یعنی قضاوت مقدمہ کاحل سب سے پہلے معتبرومسلم قانون میں تلاش کرتے ہیں اوراس کا حکم استخراج کرتے ہیں لہذا قاضی کے مجتہد ہونے کا اثر مقدمہ کی فائل پر کچھ نہیں پڑے گا اورجو قاضی تقلید کی بنا پر فقہ سے آشنا ہیں اورانہوں نے یونیورسٹی میں وکالت بھی پڑھی ہے ممکن ہے یہ ان قاضیوں کہ جو فقط مجتہد ہیں بہتر مقدمہ کو قانون سے مطابقت دیں اوراس کے حکم کو بیان کریں لہذا جناب کی نظر میں کیا آج بھی قاضی کا مجتہد ہونا حکم اولی کے عنوان سے قاضی کے شرائط سے ہی؟یا یہ کہ مقلد قاضی جو مقدمہ کے حکم کو قوانین سے نکالنے اوراستنباط کرنے پر قادر ہے وہ بعنوان اولی حکم کرسکتا ہی؟
جواب: قاضی کے لئے فقاہت اوراجتہاد کا نہ ہونا اورقضاوت کے اصول سے واقفیت اورعلم کا کافی ہونا چاہے وہ تقلید کے ہی ذریعہ کیوں نہ ہو کہ جس کے ذریعہ وہ شرعی اصول وخصوصیات کی تشخیص دے سکے تواقویٰ ہونے سے خالی نہیں ہے اور جس طرح فقہاءاورمجتہدین، معصومین کی طرف سے قضاوت کے لئے جواز رکھتے ہیں مقلدین بھی ان کی طرح جواز رکھتے ہیں اورقاضی کے لئے اجتہاد کی شرطیت اور تقلید کا کافی نہ ہونا اگرچہ مشہور ہے لیکن میرزا قمی قدس سرہ جیسے محقق اپنی ”جامع الشتات “جیسی گرانقدر کتاب کہ جو اپنی جگہ پرنظیر نہیں رکھتی، باب قضا میں عدم شرطیت کے قائل ہوئے ہیںحتی شیخ طوسی قدس سرہ کی کتاب”مبسوط“کی تنقیح میں منقولہ عبارت:اسکے علاوہ نہ تنہا اس سے اجتہاد کی شرطیت کے اجماعی نہ ہونے کے لئے استفادہ کیا گیا ہی، بلکہ بالاتر عدم مبحوریت کو ثابت کرنے کے لئے تقلید کو کافی اوراجتہاد کی عدم شرطیت سے کامل فائدہ اٹھایا گیا ہی. اس سے اشارہ ملتا ہے کہ قول اول(مقلد کی قضاوت کے جواز کوجوکہ علماءکی اقتداءاور تقلید سے فتویٰ دیتا ہی)شیخ الطائفہ کی نظر میں مہم تھا کیونکہ انھوں نے اس کو قول اول قرار دیا ہے اوریہ اول قول قرار دیا ہے اوریہ اول قرار دینا اس کی اہمیت پردلالت کرتا ہے بلکہ اس سے مذید استفادہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اگر (قول اول)کو نقل نہ کیا جاتا تو ان کے نزدیک ارحج الاقوال ہوتا بلکہ اس کا انکار بھی کتاب”تنقیح “سے ظاہر نہیں ہوا ہے خصوصاً اس وقت جبکہ انھوں نے قول ثانی کے دفاع میں اصالت برائت سے تمسک کیا ہی. “ اور عدم شرطیت کے لئے اگرچہ کسی علت کی بنا پر کتاب”جواہرالکلام اورجامع الشتات “میں استدلال کیا گیا ہے اورطرفین کے نزدیک مورد نقض وابرام قرار پایا ہے جو ان کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کوچاہئے کہ وہ ان دونوں کتابوں کے ساتھ دوسری کتابوں کی طرف بھی رجوع کرے لیکن میری نظر میں ان میں سے دو صورتیں اہم اورعمدہ ہیں: پہلی صورت:ابی خدیجہ سالم بن مکرم الجمال کی صحیحہ ہے اس میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”تم میں سے بعض لوگوں کو بعض لوگو ں کے بارے میں اہل ظلم وجور (سلطان) کی طرف سے قضاوت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے. البتہ اپنے درمیان سے کسی ایسے شخص کو چن لینا چاہئے کہ جو ہمارے فیصلوں کو بخوبی جانتا ہو، پس میں نے اس کوتمہارے درمیان قاضی قرار دیا اوراپنے مقدمہ اس کے پاس لے جاؤ . (وسائل الشیعہ، باب١، ابواب صفات قاضی، حدیث٥.)“ اور اس روایت کے مو ¿ید (بلکہ خود اس کے مثل دلیل )صحیحہ حلبی(ایضاً، حدیث٨.)ہے اس میں وہ امام صادق سے پوچھتے ہیں :”بسا اوقات ہمارے اصحاب میں سے دو اشخاص کے درمیان کسی شئے کے بارے میں اختلاف ہو جاتا ہے تو وہ ہم اپنے ہی درمیان کسی شخص کے فیصلہ پر راضی ہو جاتے ہیں تو فرمایا: وہ اس کا اہل نہیں ہے بلکہ وہ تو ایسا شخص ہے کہ جو اپنے حکم سے لوگوں کو تلوار اور تازیانہ پر مجبور کرتا ہے. “ کیفیت استدلال یہ ہے کہ جو چیز حدیث میں قضاوت کے سلسلہ میں کسی کو معین کرنے کے لئے موضوع اورمورد قرار پائی ہے وہ قضا یا کے بارے میں علم ہے اورعلم لسان قانون اورکتاب وسنت کی اصطلاح میں روشن مصداق کے عنوان سے حجت قرار دیا گیا ہے نہ کہ علم، علم ہونے کی حیثیت سے فلسفی علم ویقین موضوعیت رکھتا ہو اوریہ معنی اپنی جگہ پرتحقیق شدہ ہے ورنہ اگرضروریات دین سے گزر جائیں توفلسفی علم ویقین کی اصولاً کوئی حیثیت نہیں ہے اورنتیجہ میں یہ تمام آیات وروایات جوعلم، علماءاورعالم سے مربوط ہیں، بے موقع اوربے فائدہ ہو کررہ جائیں گی جیسا کہ یہ مطلب واضح ہے اورراحج اعتقاد پر یا ظن حجت ویقینی سے اعم پراس کو حمل کرنا، ظاہرکے خلاف ہے اورکوئی اس کی وجہ نہیں ہی. اس کے علاوہ اعتقاد ظنی پر اس کی حجیت کواخذ کرنا، ہمارے اس مطلب پر خو دایک شاہد ہے کہ جس کو ہم نے اختیار کیا ہے بہرحال محاکمات، مکالمات اورلسان قانون میں علم، حجت کے مصادیق میں سے ایک مصداق کے عنوان سے ماخوذ ہے نہ کہ موضوعیت کے عنوان سی. ” جولوگ اپنی دلیلو ں میں عرف کوترجیح دیتے ہیں ان پر مخفی نہیں ہی، اوریہ بھی واضح ہے کہ مقلد کے لئے مجتہد کافتویٰ حجیت رکھتا ہے پس جس طرح مجتہد کے لئے قضاوت کے اصول حجت ہیں، ایسے ہی مقلد کے لئے بھی حجت ہیں بالکل واضح ہے وگرنہ مجتہد بھی علم خاص کا عالم نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات قاضی کا علم ظاہر کامخالف ہوتا ہے جیسا کہ بیان ہوا کہ مقلد کی طرح مجتہد کا علم بھی ناتمام ہے اس لئے اس کوظن شخصی، ظنی مسائل میں حاصل نہیں ہوتا ہے اوریہ بات تین اعتبار سے واضح ہے ایک یہ کہ اس کے حصول پر اعتبار نہیں کیا جاتا دوسرے یہ کہ ظن نوعی معتبر ہوتا ہے نہ کہ ظن شخصی جیسا کہ یہ بات واضح ہے اورپوشیدہ نہیں ہی. اورتیسرے یہ کہ سرے سے علم اصول کے موارد میں سے ہے یا نہیں؟اس پر دقت ہونا چاہئے پس صحیحہ دونوں کوشامل ہے اوراس میں اصلاً شک کی گنجائش نہیں ہے اورنہیں کہا جاسکتا کہ مقبولہ ابن حنظلہ کے ذریعہ صحیحہ کااطلاق کہ جو مجتہد سے قضاوت کو مختص کرتی ہے کہ ذریعہ مقید ہو جائے اس لئے کہ اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ مقبولہ میں بالفرض مجتہد کی تخصیص کو تسلیم کر لیا جائے توبعید نظر نہیں آتاکہ اس صورت میں مقید نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ ثابت کرنے والے بھی تو موجود ہیں پس اطلاق کو مقید نہیں کیا جاسکتا ورنہ پھرصحیحہ کی نسبت وقت حاجت سے بیان کا متاخر ہونا لازم آئے گا کیونکہ صحیحہ میں بحث، بحث تقرر ہے اورقاضی کاتقرر اس کے پاس جانا اورصورتحال سے باخبر ہونے کے اعتبار سے قضیہ شخصیہ ہے اگرچہ اس کامورد عام ہے جس کومقید نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قضیہ خارجیہ جزئیہ قابل تقیید نہیں ہے اورتمام باتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے وجہ دوم میں اس اشکال کاتمام نہ ہونا، واضح تر ہوجائے گا. “ ٢وجہ دوم:اجتہاد کے بارے میں تنقیح مناط، القاءخصوصیت اورکفایت تقلید ہی:یعنی بالفرض ہم جو کہتے ہیں:مقبولہ اورصحیحہ سے (قضاوت کے لئے ) صرف مجتہد ہونا استفادہ ہوتا ہے نہ کہ مجتہد ومقلد دونوں یا تو اطلاق کی تقیید وجہ سے ہے کہ جس وجہ اول کے اشکال میں ذکر ہوچکا ہے یا پھر دوسری وجوہات کی بنا پر ہے کہ جوفقہی کتابوں میں مورد بحث قرار پائی ہیں. بہرحال مقلد کی نسبت دلیلوں کے کافی نہ ہونے کے علاوہ اورکوئی چیز نہیں ہے لیکن مقلد کی قضاوت کے عدم جواز پران کی دلالت واضح البطلان ہے اوریہ بات کسی نے نہیں کہی بلکہ اہل علم سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا عالم بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ ان کا کوئی بزرگ عالم کہے مگر یہ کہ از باب قیدیت کہے تو اب ہم کہتے ہیں کہ منصوب ہونے کے سلسلہ میں مجتہدین اورحدیث کے روایت کا ذکر کرنا غلبہ کے باب سے ہے یعنی مذہب اہل بیت علیہم السلام کی قضاوت اورشرعی قضاوت میں جو بات عرف کی سمجھ میں آتی ہے اورجو اس کے نزدیک معیار ہے وہ وہی احکام اوراصول کا علم ہی، لیکن چونکہ اس زمانے میں اسلامی احکام خصوصاً قضاوت کے مسائل کی نسبت (کہ جو عوام کے مورد ابتلاءنہیں رہے ہیں)ہرعلم حاصل کرنے کی غالب راہ بلکہ شاید کامل راہ، مجتہدین کے اجتہاد اورنقل روایات وردات احادیث اوران کی تدابیر میں منحصر تھی لہذا مجتہدین ہی قضاوت کے منصب پرمقرر ہوئے ورنہ واضح ہے کہ قاضی کی قضاوت میں کنویں اوراس سے پانی کھینچنے، خلل کی اجمالی فروعات (کہ جن کو فقیہ یزدی نے خلل عروہ میں بیان کیا ہی)یا کفارات احرام اوراس کے محرمات وغیرہ کے مسائل کے بارے میں علم حاصل کرنا قضاءکے باب میں کوئی اثر نہیںرکھتا ہے جیسا کہ عدلیہ کے قوانین اوراس کے اصول کے جاننے میں کہ قضاءکے بارے میں بطور کامل مو ¿ثر ہیں کوئی فرق نہیں ہے ایسے ہی ان کااجتہادیاتقلید کے ذریعہ جاننے میں کوئی فرق نہیں ہی. خلاصہ یہ کہ میری نظر میں قضاوت کے باب میں عرف کا تنقیح اورخصوصیت عرفیہ کاالقاءکرنا مسلم ہے اوراجتہاد کی عدم شرطیت کے لئے بطور اتم شرعی حجت ہے لہذا جو اشخاص قضاءکے مسائل اوراس کے قوانین کے جاننے والے ہیں وہ باقی شرائط کے ساتھ شارع مقدس اورحضرات معصومین کی طرف سے قضاوت کے لئے مجاز تھے اورہیں اوراس لحاظ سے مجتہد، مقلد اورجامع الشرائط وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہی. کتنا اچھا ہے کہ حوزہ ¿ علمیہ، یونیورسٹی کے فضلاءاورمحققین بلکہ تمام علمی، عدالتی اورحقوقی تحقیقات کے مراکز کو اسلامی مسائل کے لئے ”جواہر الکلام “کتاب القضاءکے صفحہ ٥١ سے ٩١ صفحے کا مطالعہ کرنا چاہئے اوراس عظیم فقیہ کی تحقیقی بحث پردقت کرنی چاہئے کہ جس کی کتاب شیعوں کے لئے مایہ ¿ افتخار ہے اس طرح ہم امام امت قدس سرہ کی وصیت پر کہ:”حوزات علمیہ کو سنت فقہ جواہری کی رعایت کرتے ہوئے تحقیقات پر تحقیق کر کے اضافہ کرنا چاہئی“پرعمل کرسکتے ہیں. سوال 773. عورتوں کے قاضی بننے، جرم اورجھگڑوں کی رسیدگی، تحقیقاتی مراحل کی فائیلوں کی تکمیل اورحکم کواجراءکرنے جیسے عدالت کے امور سنبھالنے کے متعلق آپ سے درخواست ہے کہ اپن نظریہ بیان کریں؟ جواب: ذکوریت کی شرط جیسا کہ مرجعیت وولایت میں نہیں ہے ویسے ہی قضاوت میں بھی شرط نہیں ہے بلکہ قضاوت کے جواز میں جو چیز معیار ہے وہ عدلیہ کے اسلامی قوانین واحکام کا علم ہے اورمرد ہونا کوئی خصوصیت نہیں رکھتا ہے اوراگر روایتوں میں مرد کی لفظ آئی ہے تو وہ گفتگو میں غلبہ کی وجہ سے ہی. اس روایت میں یا دوسری روایتوں اورمکالمات میں جو مرد سے تعبیر کیا گیا ہے یا کیاجاتا ہے اس کی قطعاً کوئی خصوصیت نہیں ہے جیسا کہ آئمہ معصومین کی طرف سے قضاءکے باب میں مردمجاز اورمتصدی ہیں اسی طرح عورتیں بھی آئمہ اطہار کی طرف سے مجاز ہیں. سوال 774. حق اللہ سے متعلق جرائم میں ملزم کے غائب ہونے پر چلائے جانے والے مقدمہ کاممنوع ہونا، کیا صرف الٰہی حدود، جیسے زنا تک ہی محدود اورممنوع ہے یا دیگر تعزیراتی مقدمے کہ جوحق الناس کا پہلو نہیں رکھتے ہیں، کو بھی شامل ہی؟اورکیا جس وقت ملزم تک رسائی نہ ہو اورفائل میں اس کے برخلاف کافی دلائل بھی موجود نہ ہوں تو کیا اس کے بری ہونے کے احکام کو جاری کیا جاسکتا ہے یانہیں؟ جواب: غیابی حکم کی ممنوعیت میں چونکہ شرط اورملاک شبہ کی بنا پر حد کا اجراءہے اس لئے اس طرح کی حد اورتعزیر میں کوئی فرق نہیں ہی. سوال 775. وہ علم جوقاضی کو مشاہدہ اورادراک کی بنا پر حاصل ہو اوروہ(فائل کی تفصیل اوراس کے علم سے ہٹ کر ہو)تو کیا حجیت رکھتا ہے یا نہیں؟وہ علم جو قاضی کودلائل وشواہد کی بنا پرحاصل ہو اوران دلائل کو شرع اورقانون نے خاص جرم کے اثبات کے لئے کافی نہ سمجھا ہو تو کیاحجت ہے یا نہیں؟بطور مثال چار مرتبہ اقرار یا چارگواہوں کے ذریعہ زنا کا ثابت ہونا ممکن ہے اگر کسی جگہ مثلاً دومرتبہ اقرار ایک گواہی اورتما م قرائن وشواہد کہ جن میں سے کوئی بھی تنہا اثبات کے لئے کافی نہیں ہے موجود ہوں اورقاضی کے علم کا باعث ہوں تو کیا یہ علم قابل اعتبار ہے یا نہیں؟قاضی کے علم کی حجیت کی بنا پر کیا صرف اس قاضی کا علم جو شرعی شرائط جیسے اجتہاد کے ہمراہ ہو حجت ہے یا پھر ہرقاضی کا علم حجیت رکھتا ہی؟ جواب: سماجی ومعاشرتی حقوق جو کہ حقوق الناس ہیں اس میں قاضی کا علم اگر قرائن وشواہد کی بنا پر ہو جو کہ معمولاً علم کا باعث ہی، حجت ہی. ان قرائن کو پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ تہمت کی گنجائش نہ رہ جائے اورقاضی کو الزام کاسامنا نہ کرنا پڑے اورمعصومین کے عمل کے ذریعہ بھی اس کی تائید ہوتی ہے اورقاضی جس درجہ قضاوت کے فن میں ماہر ہو اس کے لئے تفصیلی علم حاصل کرلینا زیادہ آسان ہے لیکن حدود کے باب میں جو ناموس کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے زنا اوراغلام تو اس کے اثبات کا طریقہ چار عادل شاہد کی گواہی اورخود مجرم کے چار مرتبہ ایسے اقرار میں منحصر ہے کہ جو کسی سازش وفریب کے بغیر اختیاری حالت میں انجام پائے اوروہ بھی روایات میں بیان کئے گئے خاص طریقہ سے ہو نہ کہ ہر طرح کی حسی اورظنی شہادت کے ذریعہ ہو. قرائن و شواہد اگرچہ سو فیصد یقین کا باعث ہوں، اطمینان تو دور کی بات ہی، اجرائے حدود کے لئے حاکم کے حکم کا موضوع نہیں ہیں. ناگفتہ نہ رہ جائے کہ حاکم کا علم، جنبہ ¿ موضوعیت رکھتا ہے نہ کہ طریقیت اوراصل کا مقتضٰی بھی حکم کا عدم جواز ہے اورتعزیرات بھی کہ جو عزت وناموس کا پہلو رکھتا ہے، اس میں تنہا خود ملزم کا اقرار اگرچہ ایک ہی مرتبہ ہو یادو شاہد عادل کی گواہی ہو، حجت اورکافی ہے لیکن اسکے علاوہ جیسے حق الناس کہ جس کے بارے میں بیان ہوا، ان میں تنہا قاضی کا علم بھی حجت ہے اورحضرت امیرالمو ¿منین کی سیرت عملی بھی اس پر مو ¿ید ہے اورگناہوں اورتخلفات سے روکنے کے لئے کافی ہوتا ہی. ناگفتہ نہ رہ جائے حدود کے مسائل اورتعزیرات کہ جس میں حق اللہ کا پہلو پایا جاتا ہے اور اس کا شمار ناموس کے مسائل میں ہوتا ہے کے متعلق علم کاحاصل کرنا قاضی پر واجب ہی نہیں بلکہ مذموم (اگر ممنوع کے قائل نہ ہوں)ہے اس لئے کہ قاعدہ ¿ادرالحدود بالشبھات(شبہات کے ذریعہ حدود معاف ہو جاتا ہیں)جاری ہے اورمشہور جملہالحدود تدرءبالشبھاتاسی حکم حدیث اورروایات عملیہ سے استفادہ کیا گیا ہی. سوال 776. اپنا نظریہ، علم قاضی کے بارے میں کہ جو اقرار وبینہ سے ملحق ہو، بیان فرمائیں اوراگر قاضی کا علم کسی تیسری راہ سے ہو تو معاف کر دینے کا حکم کیسے ہی؟ جواب: غیر اقرار میں معاف کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ عفوخلاف قاعدہ ہے لہذا نص کے مورد پر اقتصار کیا جاتا ہی. بنا برایں زنا کے اثبات کے تمام طریقے (بالفرض یہ کہ حجیت رکھتے ہوں) اس اعتبار سے بینہ کے حکم میں ہیں، لیکن بیان ہو چکا ہے کہ قاضی کا علم، زنا جیسے موارد میں کہ جن کو ثابت کرنے کے لئے شریعت میں خاص طریقے معین کئے گئے ہیں، حجیت نہیں رکھتا ہے پس دو امر میں سے یعنی یاتو چار مرتبہ اقرار یا چار شاہد کی گواہی سے ثابت ہونا چاہئی.
|