|
طلاق کے احکام
مسئلہ ۶۴٩. جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہو اسے عاقل اور بنابر احتیاط واجب بالغ ہونا چاہئے لیکن اس ممیز بچہ کی طلاق کا صحیح ہونا بھی قوت سے خالی نہیں ہے کہ جس کی عمر کے دس سال مکمل ہو چکے ہوں اور وہ خود اپنے اختیار سے طلاق دے اور اگر اسے مجبور کریں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق د ے تو طلاق باطل ہے مگر یہ کہ اسے عدالت صالحہ اور قاضی مجبور کرے اس صورت میں طلاق صحیح ہے اس کے موارد توضیح المسائل اورمجمع المسائل میں بیان ہوئے ہیں اسی طرح طلاق کا قصد بھی ہونا چاہئے لہذا اگر طلاق کے صیغہ کو مذاق میں پڑھے تو صحیح نہیں ہے نیز دو عادل گواہ مرد بھی موجود ہونے چاہئے.
مسئلہ ۶٥٠. عورت کو طلاق کے وقت خون حیض ونفاس سے پاک ہونا چاہئے اور اس کا شوہر اس طہارت کے زمانہ میں یا نفاس یا حیض جو اس طہارت سے پہلے تھا اس میں اس نے ہمبستری نہ کی ہو ان دونوں شرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بیان ہو گی. مسئلہ ۶٥١. عورت کو حیض یا نفاس کی حالت میں طلاق دینا تین صورتوں میں صحیح ہے. ١. شادی کے بعد اس کے شوہر نے اس سے ہمبستری نہ کی ہو. ٢. وہ حاملہ ہو اور اگر معلوم نہ ہو کہ حاملہ ہے اورشوہر اسے حیض کی حالت میں طلاق دے اور بعد میں معلوم ہو کہ حاملہ تھی تو کوئی حرج نہیں ہے. ٣.حاضر نہ ہونے کی وجہ سے مرد کو معلوم نہ ہو سکے یا عورت کے پاک ہونے کا سمجھنا اس کے لئے مشکل ہو. مسئلہ ۶٥٢. طلاق صحیح عربی صیغہ میں پڑھی جائے اور دو عادل مرد اسے سنیں اور ظاہراً اس جگہ ظاہری عدالت جیسے امام جمعہ کی عدالت کفایت کرے گی اور عدالت واقعی یعنی عدالت اس معنی میں کہ بعد میں برخلاف ظاہر نہ ہو معتبر نہیں ہے اور فقیہ محترم مرحوم آیت اللہ بروجردی بھی شہید ثانی کی اتباع کرتے ہوئے یہی نظریہ رکھتے تھے اور اگر خود شوہر صیغہ طلاق پڑھنا چاہے اوراس کی بیوی کا نام مثلاً فاطمہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس طرح کہے. زوجتی فاطمة طالق(میری بیوی فاطمہ آزاد ہے)اور اگر کسی دوسرے کو وکیل کرے تو اس وکیل کو کہناچاہے. زوجة موکلی طالق.
|