|
مصنوعی طریقہ سے حاملہ ہونا
مسئلہ ۶٠٩. شوھر کے نطفہ سے بیوی کو مصنوعی طریقہ سے حاملہ کرنا جائز ہے البتہ حرام مقدمات سے پرہیز کرنا چاہئےمشلاً فرٹی لائز کرنے والا نامحرم ہو اور. . . . گرچہ اس طرح کے امور نطفہ اور بچہ کے حرام ہونے کا باعث نہیں ہیں چونکہ مقدمات سے متعلق ہیں اور خود مقدمات حرام ہیں اوربچہ صاحب نطفہ مرد وعورت سے متعلق ہے اور فرزند کے تمام احکام کا حقدار ہی.
مسئلہ ۶١٠. اگر کسی شوہر اور بیوی کے متعقد شدہ نطفہ کو بیوی کے رحم سے نکال کر کسی دوسری عورت کے رحم میں منتقل کریں(یعنی ادھار یا کرایہ کے رحم میں ڈالیں)اوربچہ اس عورت کے رحم میں بڑا ہو کر پیدا ہوتو وہ بچہ اس پہلی عورت کا (جو کہ صاحب اوم (ovam)اور نطفہ امشاج کے وجود میں آنے کی مورد ہے)ہوگا اوردوسری عورت دودھ پلانے کے شرائط محقق ہونے کے بعد اسے دودھ پلائے تو اس بچہ کی رضاعی ماں ہو گی گرچہ دودھ کا صاحب نہیں ہوتا یعنی دودھ رحم کوادھار دینے والی عورت کے شوہر سے متعلق نہیں ہے اور رضاع میں جو چیز مانع ہو وہ”بدون ولادت دودھ کا اترنا ہے جبکہ اس جگہ ولادت کی وجہ سے دودھ اترا ہے اوررضاع کے اطلاقات وعمومات اسے اپنے اندر شامل کر لیں گے اوراگر نطفہ کورحم سے نکالنے کے بعد مصنوعی رحم اور لیب کے اندر بڑا کیا جائے تو اس صورت میں بھی بچہ اس پہلی عورت سے متعلق ہے جس کا اوم (ovam )ہے. مسئلہ ۶١١. اگر کسی مرد کی منی کو کسی دوسری عورت کے رحم میں ڈال دیا جائے اورمعلوم ہو کہ ہونے والا بچہ اس منی سے ہے اب اگر یہ عمل بطور شبہ تھا مثلاً اس نے یہ گمان کیا کہ وہ اس کی بیوی ہے اورعورت بھی یہ گمان کر رہی تھی کہ اس کے شوہر کی منی ہے اورعمل کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے شوہر کی نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور بچہ شرعاً اس مرد وعورت کا ہے اورفرزندی کے تمام احکام کا مالک ہے. مسئلہ ۶١٢. جب عورت کے اندر اوم کو آزاد کرنے اور رحم کے اندر داخل کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس صورت میں جائز ہے کہ اوم آپریشن کے ذریعہ اس کے رحم سے نکال کر باہر اس کے شوہر کے اسپرم کے ساتھ فرٹی لائز کریں اور پھر اس کے رحم میں داخل کر دیں. مسئلہ ۶١٣. مرد کا نطفہ لے کر اسے مصنوعی رحم میں مصنوعی بیضہ کے ساتھ تولید مثل کی غرض سے ڈالنا، جائز ہے اوراگر اس طریقے سے کوئی بچہ متولد ہو(ٹیسٹ ٹیوب بے بی)تو وہ بچہ، صاحب نطفہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی ماں نہیں ہو گی اور بطور کلی صاحب نطفہ باپ شمار ہوتا ہے مگر نطفہ نامشروع مثلاً زنا میں نہیں. مسئلہ ۶١۴. شوہر کے اسپرم کو قوت پہنچانے کے لئے دوسرے مرد(وہ چاہے معلوم ہو یا مجہول) کے اسپرم سے استفادہ کرنا اور تقویت شدہ اسپرم کو عورت کے رحم میں سرنج کے ذریعہ ڈالا جانا، مگر یہ کہ دوسرے مرد کا اسپرم قوت پہنچانے والی دوا کی طرح صرف تقویت کا باعث ہو اور شوہر کے اسپرم میں منحل ہو جائے اس طرح کہ بچہ کی پیدائش کاسبب شوہر کے اسپرم کو قرار دیا جائے اورغیر زوجہ کے رحم میں مرد کی منی بھلے ہی ملا کر داخل کرنے کے مصداق سے خارج ہو تو کوئی مانع نہیں ہی. مسئلہ ۶١٥. شوہر کے اسپرم کو کسی غیر عورت کے اوم کے ساتھ باہر فرٹی لائز کرنا اورپھر اسے زوجہ یا اسی عورت یا پھر کسی دوسری عورت کے رحم میں سرنج کے ذریعہ داخل کرنے میں ظاہراً کوئی حرج نہیں ہے چونکہ نہ تو زنا ہے نہ ہی منی کا غیر زوجہ کے رحم میں داخل کرنا ہے اور اگر اس روش سے بچہ پیدا ہوتا ہے تومرد سے ملحق ہے اوروہ عورت جس کا اوم ہے اس صورت میں کہ جب اسپرم اور اوم کا فرٹی لائز کیا جانا اس کی مرضی سے ہو اور اس نے اپنے اوم سے اعراض نہ کیا ہو (جیسے اس طرح کے بینک کے حوالہ کر دینا تاکہ جو چاہے اس سے استفادہ کرے) تو ظاہراً اس کا ماں ہونا ثابت ہی. سوال ۶١۶. بعض بیمار عورتیں بیض (ovary)یا اس سے متعلق موارد میں مشکل کی وجہ سے اوم کی تولید یا اسے رحم تک پہنچانے پر قادر نہیں ہوتیں جو فرٹی لائیزیشن ہوسکے اورنتیجہ میں عقیم ہوتی ہیں جبکہ ان کے رحم (uterus)میں کوئی خرابی نہیں ہوتی اوربچہ اس میں رہ کر نمو کرسکتا ہے تو کیا ایسی عورتوں میں سے کسی کا شوہر کسی دوسری عورت سے متعہ کر ے اوراس عورت کے اوم کو لے کر اس متعہ کرنے والے مرد کے اسپرم کے ساتھ فرٹی لائز کرلیا جائے اوراس سے حاصل نطفہ کو دائمی زوجہ کے رحم میں منتقل کر دیا جائے اور ولادت کے بعد بچہ دائمی زوجہ و شوہر کے پاس تربیت پائے اوربڑا ہو تو کیسا ہے؟ جواب: جائز ہے اوراوم کی مالک عورت اس کی ماں ہے اورجس کے رحم میں بڑا ہوا وہ عورت بھی باپ کی زوجہ ہونے کی وجہ سے اس کی محرم ہی. سوال ۶١٧. اسپیشلسٹ ڈاکٹر نے تشخیص دیا ہے کہ عورت کا نطفہ کمزور ہے اس کو دوسری عورت کے نطفہ کے ذریعہ تقویت کرنا ہوگا تب بچہ ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں غیر عورت کے اوم کو تقویت کی غرض سے سرنج کے ذریعہ پہنچانا جائز ہے یا نہیں؟ اوراگر اس عمل کے بعد عورت حاملہ ہوگی اوربچہ پیدا ہوا تو ان دونوں عورتوں میں سے کس سے متعلق ہو گا؟ جواب: اس عمل کو ذاتی طور پرحرام نہیں کہا جاسکتا اوربچہ اس عورت سے متعلق ہے جو صاحب رحم اور ضعیف نطفہ رکھتی تھی اس بچہ کو اس عورت سے متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ جس کے اوم کوتقویت کی غرض سے استمال کیا گیا چونکہ اس کا اوم تقویت دینے والی دوا کے حکم میں ہے. سوال ۶١٨. اجنبی مرد کااسپرم کہ جو”اسپرم بینک“میں محفوظ کیا جاتا ہے مصنوعی تلقیح کے ذریعے کسی مسلمان عورت کے رحم میں ڈالنا کہ جس کا شوہر عقیم (بانجھ)ہے، خواہ میاں بیوی اس کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اور شوہر بھی راضی ہو تو اسکا کیا حکم ہے؟ جواب: حرام ہے اور ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن بچہ نہ ہونے کی مشکل اور جو حرج ومشقت میاں بیوی کے لئے پیدا ہو چکی ہے اسے برطرف کرنے کے لئے حرمت عمل رفع ہو جاتی ہے اورجس طرح ”حرج“ بعض حرام امور کی نفی کرتا ہے ایسے ہی اس قسم کے بعض حرام کاموں کے لئے رافع بھی ہوگا اگرچہ وہ (شوہر) صاحب نطفہ نہیں(لیکن) اولاد نہ ہونے کی وجہ سے جو حرج ومشقت اور اجنبی منہ بولی اولاد کی وجہ سے جو مشکلات موجودہ حالات میں پیدا ہو رہی ہیں ان کی وجہ سے شوہر اوراس کے رشتہ داروں کے لئے اس بچہ کے اولاد ہونے کے تمام آثار مترتب ہوں گے اور یہ واضح ہے کہ بیضہ کی حامل (عورت) اس بچے کی حقیقی ماں ہے اور یہ بھی فراموش نہ رہے کہ شوہر اور منہ بولے باپ اور اس بچہ کے درمیان ارث وغیرہ کے مسائل نہیں ہوں گے اس لحاظ سے وہ اجنبی کے حکم میں آتے ہیں البتہ ہبہ اور جداگانہ تصرفات یا ثلث مال کو وصیت کے ذریعے اسے وارث کے حکم میں لاسکتے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ اگر یہ اولاد بیٹی ہو تو مذکورہ حکم کے علاوہ اس شوہر کے لئے ربیبہ ہونے کے ناطے محرم ہوگی البتہ اس شرط کے ساتھ کہ شوہر نے اپنی بیوی سے مباشرت کی ہو ربیبہ کے ساتھ مرد کی محرمیت کا معیار فقط اس لڑکی پر ربیبہ کاصادق آنا اور بیوی کی بیٹی ہونا ہے. سوال ۶١٩. شوہر کی رضایت کے ساتھ، مجہول الحال(ناشناس) ماں باپ کا بارآور نطفہ مسلمان عورت کے رحم میں ڈالنا کیاحکم رکھتا ہے؟ جواب: اولاد نہ ہونے اوراس کی وجہ سے حرج ومشقت میں پڑنے کی صورت میں اسے حرام نہیں کہہ سکتے البتہ شوہر، باپ نہیں ہو گا جیسا کہ عورت کا ماں ہونا بھی محل تامل ہے بلکہ منع ہے اورحقیقت میں وہ فرزند، نامشروع وزنازادہ نہیں اور اس پر زنازادہ ہونے کے آثار مترتب نہیں ہوتے اوراولاد ہونے کے آثار مثلاً ارث حاصل کرنا اور قرابت وغیرہ بھی مترتب نہیں ہوسکتے لیکن اگر عورت، وضع حمل کے بعد اسے دودھ پلائے تو پیدا ہونے والا یہ بچہ ماں کا رضاعی فرزند شمار ہوگا یاد رہے کہ فرزند کی محرمیت کاحکم مسئلہ ۶١٩ میں بیان ہو چکا ہے.
|