Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اعلم کي تقليد

اعلم کي تقليد سوال 10. کيا اعلم کي تقليد مکلف پر لازم ہے؟
جواب: (اگر بنا بر اقوي) نہ کہيں تو علي الاحوط لازم ہے اور کيونکر اس کے عدم لزوم کا فتوي ديا جا سکتا ہے جبکہ محقق ثاني سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے صراحت کے ساتھ غير اعلم کيلئے عدم جواز پر اجماع کا دعوي کيا ہے، بلکہ سيد مرتضي علم الھدي? سے منقول ہے کہ غير اعلم کي تقليد جائز نہيں ہے اور يہ شيعہ مسلمات ميں سے ہے.
سوال 11. کيا اعلميت نسبي امر ہے مثلاً کوئي فرد دين ميں بعض نظريات کا حامل ہے اور صرف کسي مجتہد کي طرف سے اس کے نظريات پر دستخط کر دينے سے کيا ا کي بعنوان اعلم تقليد ہو سکتي ہے؟
جواب: شرعي احکام کے استنباط ميں معيار، اعلميت ادلہ ہيں اور وہ بھي حوزہ علميہ ميں خارج فقہ و اصول کي کثرت تحصيل و تدريس اور فقہي مسائل ميں کرّ و فرّ سے مشروط ہے.
سوال 12. ہم نے انقلاب سے کچھ سال پہلے اپنے شرعي فريضہ کے پيش نظر فقط اپني تشخيص کي بنياد پر اعلم اور جامع الشرائط مجتہد کے شرائط انتخاب پر توجہ کئے بغير ايک شخص کا رسالہ فراہم کيا اور اس کي تقليد کي، کيا يہ تقليد کا طريقہ درست ہے؟
جواب: اگر اس زمانے ميں اس کے اعلم ہونے کا آپ کو اطمينان تھا يا ان پہلوؤں پر توجہ کئے بغير آپ نے اس کے فتوي پر عمل کيا ہے اور تحقيق کے بعد نيز دوسروں کي اعلميت آپ کے نزديک ثابت ںہيں ہوئي ہے تو آپ کي تقليد اور عمل صحيح ہے، ليکن اگر کسي دوسرے شخص کي اعلميت آپ پر ثابت ہو گئي تو پہلے شخص سے اس کي طرف رجوع واجب ہے ور ثابت ہونے کے بعد عمل اس مجتہد اعلم کے فتوے کے مطابق ہونا چاہئے اور اگر اس وقت کسي دوسرے فرد کي اعلميت کي طرف متوجہ ہوئے ہيں تو يہ آپ کے گذشتہ اعمال کے لئے مضر نہيں ہے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org