Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: صدقات

صدقات سوال ٣٨٣. صدقہ کے متعلق توضیح فرمایئے؟
جواب: ہر عطیہ اور بخشش جو بلا عوض قربت خدا کی نیت سے ہو وہ صدقہ ہے اور اس کا کوئی نصاب نہیں ہے صدقہ انسان کو مختلف بلاؤں مثلاً امراض، آگ لگنے، ایکسیڈنٹ، ڈوبنے، جنون، ناگوار موت وغیرہ سے بچاتا ہے اور انھیں انسان سے دفع کرتا ہے اس کے متعلق رسولخدا نے فرمایا ہے«صدقہ ستر قسم کی بلاؤں کو دور کرتا ہے» یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو اخروی اور معنوی ثواب کے علاوہ ہیں اور صدقہ سے حاصل ہوتی ہے.
پروردگار عالم ان دیگر تمام چیزوں کو کہ جن کو لینے کے لئے دوسروں کو وکیل اور مامور کیا ہے کہ بر خلاف صدقہ اپنے ہاتھوں سے لیتا ہے«الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبة عن عبادہ ویاخذ الصدقات وان اللہ ھو التواب الرحیم».

سوال ٣٨۴. صدقہ کے صحیح ہونے کے شرائط بیان فرمایئے؟
جواب: اگر صدقہ کی حقیقت میں قصد قربت کو جزء ماہیت اور شرط داخل نہ جانیں تو بھی اس کا صحت کے لئے شرط ہوںا بلا شبہ اور قطعی ہے.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا«لا صدقة ولا عتق الا ما ارید بہ وجہ اللہ عزوجل».
اصحاب نے گرچہ ایجاب اور قبول کو شرط صحت جانا ہے لیکن اس کے کوئی قانع کرنے والی دلیل نہیں ہے اور اطلاعات و عمومات کی اقتضاء کے مطابق بلکہ اصل قربت کا شرط نہ ہونا ہے اور خاص روایتیں بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.
«عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی الرجل یخرج بالصدقہ لیعطیھا السائل فیجدہ قد ذھب، قال: فلیعبیھا غیرہ ولا یردھا فی مالہ».
ابی عبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے: اس شخص کے متعلق جو صدقہ کے ساتھ نکلتا ہے کہ فقیر کو دے لیکن دیکھتا ہے وہ چلا گیا. فرمایا: پس دوسرے کو دیدے اور اسے اپنے مال میں نہ ملائے.
واضح ہے کہ روایت میں نہ ایجاب ہے نہ قبول نہ قبض ہے نہ اقباض اسے دینے کا حکم اور(اپنے مال میں)ملانے کے نہ ہونے کا ذکر ہوا ہے جو صدقہ کا لازمہ ہے. .
«عن ابی عبداللہ علیہ السلام ان علیاً علیہ السلام کان یقول: من تصدق بصدقة فردت علیہ فلا یجوزا کلھا و لا لہ الا انفاقھا انما منزلتھا بمنزلة العتق للہ فلوان رجلاً اعتق عبداللہ فردذلک العبد لم یرجع فی الامر الذی جعلہ اللہ فکذلک لا یرجع فی الصدقة».
حضرت ابا عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے تھے: اگر کوئی شخص صدقہ دے اور وہ صدقہ اس کی طرف پلٹ جائے تو جائز نہیں ہے کہ وہ خود کھائے مگر یہ کہ وہ اس کو انفاق کر دے اس کی منزلت اس کی راہ میں غلام آزاد کرنے کی طرح ہے یعنی اگر کوئی خدا کے لئے بندہ آزاد کرے اور وہ غلام اس کی طرف پلٹ آئے تو پھر اس کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتا ایسے ہی وہ صدقہ ہے جو اللہ کی راہ میں دیا گیا ہو اگر واپس آجائے تو پھر بھی صدقہ میں داخل ہوتا ہے.
اس روایت کا مورد بھی پہلی روایت کی طرح ہے جہاں ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک موجود نہیں ہے چونکہ ظاہراً با وجود اس کے کہ اس نے قبول نہ کیا اور لینے سے پہلے واپس کر دیا لیکن پھر بھی اس کا استمال جائز نہیں قرار دیا گیا اور اپنے اموال کا جز بنانے سے روکا گیا ہے ورنہ صدقہ میں کسی کو خدا کا شریک نہ بنانے کے خلاف ہو گا(٢)نیز یہ روایت ان دیگر روایتوں کی طرح عدم شرطیت پر دلالت کرتی ہے کہ جن میں صدقہ کو عنق(آزاد کرنے)سے تشبیہ دی گئی ہے اور چونکہ عنق ایقاع ہے لہذا قبض واقباض کا وہاں تصور نہیں ہے.
منجملہ دیگر روایتیں جن سے استدلال کیا جا سکتا ہے محمدبن مسلم کی صحیحہ ہے:
«قال سئلت ابا جعفر عن رجل کانت لہ جاریة فاذتہ فیھا امراتہ، فقال: ھی علیک صدقہ، فقال: ان کان، قال: ذلک فلیمضھا و ان لم یقل فلیرجع فیھا ان شاء».
اس صحیحہ میں کیفیت استدلال اس طرح ہے کہ صدقہ کو واپس لینے کے عدم جواز کا مکمل معیار دو چیزیں قرار دی گئی ہیں:انشاءصدقہ اور صدقہ کی نیت اس کے علاوہ ظاہراً روایت کے متعلق قبض و اقباض کا وقوع نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ پلٹانے کے جواز کا نہ ہونا قصد قربت ہونے کے فرض کی وجہ سے ہے لذا صحیحہ مورد اور قاعدہ کے لحاظ سے عدم شر طیت پر دلالت کرتی ہے.

سوال ٣٨٥. صدقات میں سب سے افضل کیا ہے؟
جواب:١. اپنے عیال کے لئے وسعت دینا سب سے بڑا صدقہ ہے اس لئے شہیدرح نے دروس میں فرمایا ہے«والتوسعة علی العیال من اعظم الصدقات»
٢. اس شخص کا صدقہ دینا جس کی مالی حالت روبراہ ہے«افضل الصدقة من ظھر غنی».
٣. وہ صدقہ جو خود اس شخص کے ایثار کے ساتھ نہ ہو کہ اس کی بیوی بچوں کی طرف سے اس لئے کہ بیوی بچوں کے متعلق کہا گیا ہے ان کی طرف سے ایثار و کشادگی نہ کرے یہ افضل صدقہ ہے اور بنیادی طور پر جن جگہوں پر ایثار کا حکم دیا گیا ہے اس کا مخاطب خود ایثار کرنے والا ہے نہ کہ دوسرے(جیسے اس کے بیوی بچے اور گھر کے دیگر افراد) اور انھیں مشقت و تکلیف میں مبتلا کرنا نا قابل مذمت امر ہے بلکہ بعض جگہوں پر حرام ہے.
۴. دعوت اور مہمانداری کرنا.
٥. اپنے اقربا کو صدقہ دینا کیونکہ اقرباء میں محتاج ہونے کی صورت میں دوسروں کو صدقہ دینا مکروہ ہے بلکہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا«لا صدقہ وذورحم محتاج»اور حاجتمند اقرباء ہونے کے باجود دوسروں کو صدقہ دینا شمار نہیں ہوتا رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے اپنے اقرباء کو صدقہ دینا ستر گنا(ثواب رکھتا ہے (٢)جبکہ عام صدقہ دینا دس گنا(ثواب رکھتا ہے)من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا.
نا گفتہ نہ رہ جائے اپنے اقرباء کو صدقہ دینا صلہ رحم کے مصادیق میں سے ہے جو عمر کے طولانی ہونے کا باعث ہے چونکہ صدقہ بھی اپنی جگہ پہنچے تو بہتر ہے اس لئے کہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والوں کی نسبت شناخت رکھتا ہے اور وہ بھی ناراحتی کا احساس نہیں رکھتے(چونکہ مدد اور تعاون اپنے اقرباء اور اعزاء سے پا رہے ہیں)اور اگر ناراحتی کا احساس بھی کریں تو دوسروں سے صدقہ لینے کے ناراحتی کے احساس سے کمتر ہے ان سب کے علاوہ چونکہ وہ اعزا و اقارب ہیں لہذا ان کی خوشی و دعا کا انسان کی زندگی پر بڑا اثر پڑتا ہے.
اس جگہ اعزاواقرباء کو صدقہ دینے کی اہمیت اور معنویت سے مذید آشنائی اور زیادہ توجہ کے لئے صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں.
«عن الحسین بن زید، عن الصادق عن آبائہ علیھم السلام عن النبی(ص)فی حدیث المناھی قال: و من مشی الی ذی قرابة بنفسہ وما لہ لیصل رحمہ اعطاہ اللہ عزوجل اجر شھید مائة شھید ولہ بکل خطوة اربعون الف حسنة و محی عنہ اربعون الف سیئة ورفع لہ من الدرجات مثل ذلک و کان کانما عبداللہ عزوجل مائة سنة صابراً محتسباً».
حسین بن زید حضرت صادق سے اور آنحضرت رسول اللہ سے ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ حضرت رسول نے فرمایا: جو شخص اپنے قرابت دار تک اپنے یا اپنے مال کو پہنچائے تا کہ صلہ رحم کر سکے خدا وند متعال اس کو سو شہیدوں کا ثواب عطا کریگا اور اس کے ہر ایک قدم پر چالیس نیکیاں لکھے گا اور اس کی چالیس برائیوں کو پاک کریگا اور اس کو چالیس درجہ بلند کرےگا اس حال میں کہ بندہ خدا سو سال سے صابر ہے اور اس کا حساب ہو رہا ہے.
اپنے اقرباء کو صدقہ دینا اس درجہ مطلوب اور اہمیت کا حامل ہے کہ اگر وہ عزیز و رشتہ دار دشمن بھی ہو تو اسے صدقہ دینا مستحب ہے اور بہترین صدقہ ہے.
۶. دانشوروں، علماء اور طالبعلم کو صدقہ دینا.
٧. رسول خدا کی ذریت(آل) کو صدقہ دینا.
٨. پانی دینا.
٩. میت کی طرف حج کرنا.
١٠. مر جانے والوں کی طرف سے صدقہ دینا جو اب دنیا میں کھچھ نہیں کر سکتے اور زندہ افراد کے اعمال خیر کے شدت سے محتاج ہیں.
١١. آبرو، شخصیت اور منصب کو بخش دینا(یعنی مظلوم کے لئے واسطہ بنناا).
١٢. دینی بھائیوں کے لئے ہدیہ لے جانا.
١٣. وہ صدقہ جو کسی کے مانگنے سے پہلے اسے دے دیا جائے.
١۴. جو صدقہ تاخیر کئے بغیر جلدی دے دیا جائے.
١٥. وہ صدقہ جس کو دینے والا اسے کم شمار کرے اور کسی کو نہ بتائے.
١۶. وہ برم گفتگو جو انسان کی ہدایت کا باعث ہو اور دشمنی کو دور کرنے یا کسی دوسری بھلائی کا باعث ہو آخر میں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ شہیدرح نے کتاب دروس میں فرمایا ہے: زمین کے کیڑوں مکوڑوں اور دریا کی مچھلیوں کو چارہ دینا بھی عظیم ثواب رکھتا ہے اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:صدقہ دینے کے ساتھ منعم کا شکر واجب ہے اور اس کی بہ نسبت کفر کرنا حرام ہے.

سوال ٣٨۶. کیا سادات کو صدقہ دینا جائز ہے؟
جواب: جائز ہے، البتہ زکات دینا مطلقاً ممنوع ہے اور کفارہ، رد مظالم بھی سادات کو نہ دینا احتیاط مستحب ہے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org