|
اذان صبح تک حیض،نفاس اور جنابت پر باقی رہنا
مسئلہ 283. اگر مجنب عمداً اذان صبح تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا وظیفہ تیمم ہے اور وہ عمداً تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے.
مسئلہ 284. اگر کوئی عمداً ماہ رمضان کے روزوں اور اس کے قضا روزوں کے علاوہ دوسرے واجب و مستحب روزوں میں اذان صبح تک غسل نہ کرے اور تیمم بھی نہ کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے. مسئلہ 285. اگر مجنب ماہ مبارک رمضان کی شب میں سوئے اور بیدار ہو اور اسے علم ہو یا احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور ارادہ بھی ہو کہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا چنانچہ دوبارہ سو جائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس روز کے روزہ کی قضا کرے اسی طرح اگر دوسری مرتبہ بیدار ہو اور پھر تیسری بار سو جائے تو یہی حکم ہے اور ان دونوں صورتوں میں احتیاط مستحب کفارہ دینا ہے. مسئلہ 286. اگر عورت اذان صبح سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور عمداً غسل نہ کرے یا اگر اس کا وظیفہ تیمم ہے اور عمداً تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے. سوال 287. جو ماہ مبارک رمضان میں اذان صبح سے پہلے بیدار ہو جائے جبکہ وہ نیند کی حالت میں محتلم ہوا ہو اور غسل کرنے کا امکان بھی نہ ہو تو اس کے روزے کا کیا حکم ہے؟ جواب: وقت کی تنگی کی صورت میں اسے تیمم کرنا چاہئے، اس کا روزہ صحیح ہے. سوال 288. میں ایک ایسی عورت ہوں کہ شوہر کے گھر آنے سے پہلے تین سال تک مجھے حیض آتا رہا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ غسل حیض انجام دینا چاہئے میں صرف حمام میں شاور کے نیچے جاتی تھی اور حضرت محمد وآل محمد علیھم السلام پر صلوات پڑھ کر نہا لیتی تھی اور روزے بھی رکھتی تھی اور حالت حیض میں مسجد میں بھی گئی ہوں تو کیا مجھے نماز و روزہ کی قضا کرنی ہو گی؟ جواب: ہر چند جس طرح سوال میں غسل کا تذکرہ کیا گیا ہے، بری الذمہ ہونے کے لئے کافی ہے (چونکہ قصد قربت اور نا واقفیت بھی قصور کی وجہ سے تھی جو وسعت اور رفع کا باعث ہے) لیکن مطلوب اور بہتر یہ ہے کہ تدریجی طور پر نمازوں کی قضا بجا لا کر احتیاط کی جائے، اس طرح کہ مشقت اور حرج کا باعث نہ ہو. اگر چہ اس کی رعایت ضروری نہیں ہے لیکن روزے قطعاً درست ہیں اور قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ حیض پر باقی رہنا عمداً نہیں تھا.
|