|
وطن اور اس سے رو گردانى
سوال ٢١٤. کيا وہ طلاب جو قم ميں غير معين مدت کے لئے رہتے ہيں اگر ہفتے ميں ايک مرتبہ مسافرت کريں تو ان کى اقامت کا قصد ختم ہو جاتا ہے يا پھر چونکہ انھوں نے قم ميں غير معين مدت تک ٹہرنے کا قصد کر ليا ہے اس لئے ان کا وطن شمار ہو گا اور ان کى نماز تمام ہو گى؟
جواب: جس جگہ بھى انسان طے کر لے کہ وہاں ايک مدت تک رہنا ہے وہ اس کے وطن کے حکم ميں ہے اور وطن کے تمام آثار اس پر مرتب ہونگے لذا حوزہ علميہ قم کے علماء، يونيورسٹى کے طالب علم، کام کرنے والے لوگ اگر طے ہو کہ کسى جگہ تحصيل يا احکام کو بجا لانے کے لئے ايک مدت تک قيام کريں گے تو نماز اور روزہ تمام ادا کرنے کے لئے ضرورى نہيں ہے کہ وہ دس دن قيام کى نيت کريں اس لئے کہ مسافرت قيام کے لئے مضر نہيں. سوال ٢١٥. بيوى کسى شہر کى ہے اور شوہر کسى اور شہر کا ہے اور دونوں کے رہنے کى جگہ ايک تيسرا شہر ہے تو اس عورت کے نماز اور روزہ کا حکم اس کے شوہر کے وطن ميں کيا ہے؟ کيا اس کے شوہر کا اس کى تبعيت ميں چلا جانا اپنے وطن سے روگردانى کرنا شمار ہو گا يا نہيں؟ جواب: چونکہ معمول کے مطابق طے يہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے ساتھ جہاں وہ زندگى کرتا ہے وہاں رہے گى لذا اگر اپنے شوہر کے زندگى گزارنے کى جگہ کو اپنا وطن بنانے کا قصد کر لے تو اس کا وطن شمار ہو گا اور اگر وہاں وطن کا قصد نہ کرے اور يہ طے ہو کہ ايک مدت کے بعد يا مستقبل نا معلوم ميں کسى دوسرى جگہ جانے والے ہوں ايسى جگہ (کہ جہاں ايک مدت تک رہنا چاہتے ہوں) ان کے لئے وطن کے حکم ميں ہے ليکن اس سے پہلے کى سکونت والى جگہ کہ جہاں مرضى کے مطابق پلٹ کر نہيں جانے والے ہيں تو اگر چہ وہاں واپسى کے لئے قلبى خواہش ہو، وہ وطن ہونے سے خارج ہے. واپسى کى دل میں خواہش رکھنا اور چیر ہے اور واپسى کے لئے پروگرام بنانا اور چیز، ليکن شوہر کے اصلى وطن ميں اس کى نماز قصر ہے.
|