Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: شرعي سوالات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: قصاص کے لئے رشد معيار ہے، نہ کہ بلوغ
قصاص کے لئے رشد معيار ہے، نہ کہ بلوغ
محترم و مکرم جناب مرجع عالي قدر حضرت آيۃ اللہ العظميٰ صانعي (مد ظلہ العالي)
سوال: قاتل کو قصاص کرنے کے لئے، قتل کے وقت اس کا بلوغ معيار ہے يا اس کا رشد؟ ايسے موارد ميں جہاں پر قاتل کي عمر تو بلوغ کي حد تک پہونچ چکي ہے، ليکن ماہرين کے مطابق، ابھي رشد اور ادراک مکمل نہيں ہوا ہو، کيا وہاں پر بھي قصاص کرنا جائز ہے؟ رشد کا معيار کيا ہے اور اس کو کون تشخيص دے سکتا ہے؟ جہاں پر رشد کے بارے ميں اختلاف پايا جاتا ہو، وہاں کيا کرنا چاہئے؟

اگرچہ ہماري نظر ميں، قصاص کرنے کے سلسلے ميں، عقل اور رشد معتبر ہے اور يہاں پر بلوغت کا معيار معتبر نہيں ہے. (اس سلسلے ميں تفصيلي بحث، حضرت امام خميني کي کتاب «تحرير الوسيلہ» کي شرح «کتاب القصاص» ميں بيان کر دي گئي ہے.) لہذا ايسا قاتل جس کي عمر قتل کرنے کے وقت اٹھارہ سال سے کمتر ہو، اس کا قصاص کرنا جائز ہے، اور اولياء دم (مقتول کے وارثين) کے حق کا لحاظ کرنا ضروري ہے. ليکن جرم شناسي، سماجيات اور سائيکولوجي (علم النفس) جيسے علوم کے ماہرين و ... جو رشد کے امور ميں مہارت رکھتے ہيں، اگر ان کا نظريہ يہ ہو کہ اس عمر ميں رشد، آگاہي اور ادراک مکمل نہيں ہوتا ہے، (يعني اگر ان کا نظريہ يہ ہو کہ اس عمر کے آدمي ميں قتل کے نتائج کے بارے ميں ادراک اور شعور، ويسا نہيں ہوتا ہے جيسا کہ بڑوں اور اٹھارہ سال سے اوپر کے لوگوں ميں ہوتا ہے) تو اس صورت ميں اٹھارہ سال سے کمتر عمر رکھنے والے قاتل کو قصاص نہيں کيا جا سکتا، کيونکہ وہ ابھي رشد کي حد کو نہيں پہونچا ہے. اور علامہ نے «تحرير» ميں بھي رشد کو ہي معيار بنايا ہے.
ہاں! اگر اولياء دم يہ ثابت کر دکھائيں کہ قاتل رشد کي حد ميں ہے، تو اس صورت ميں ان کے لئے حق قصاص ثابت ہے. اور اس بات کا ذکر کرنا بھي ضروري ہے کہ اگر قاضي کے لئے کسي خاص مورد ميں يا پھر عام طور پر رشد کے فقدان کا شبھہ بھي پيدا ہو جائے، (اس عمر کے لوگوں کے رشد کے بارے ميں کوئي حجت شرعي نہ ہو، يا ان کے رشد کے بارے ميں مطمئن نہ ہو) تو ان کو قصاص کرنے کا فيصلہ نہيں دے سکتا. اور يہ فيصلہ ناجائز اور حرام ہو گا؛ کيونکہ دماء (کسي کي جان) کے بارے ميں احتياط کرنا، شرعاً اور عقلاً واجب ہے.




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org