دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت ختمی مرتبت (ص) نے اپنی آسمانی رسالت کو خوش اخلاقی، تفکر، حکمت اور نصیحت سے آگے بڑھایا.
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرتحضرت ختمی مرتبت (ص) نے اپنی آسمانی رسالت کو خوش اخلاقی، تفکر، حکمت اور نصیحت سے آگے بڑھایا.
پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے پیروکاروں کی سیرت اور کردار کو قرآن کریم سورہ یوسف (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام) میں بیان فرما رہا ہے اور واضح کر رہا ہے کہ ان کو کیا کرنا چاہئے. قرآن اپنے خوبصورت بیان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دے رہا ہے کہ دوسروں پر واضح کر دو کہ میری دعوت کی بنیاد بصیرت پر ہے: «قل هذه سبيلی ادعوا الی الله علی بصيره انا و من اتبعنی»؛ (يوسف/108) یعنی میں آپ کو علم و کمال مطلق کی طرف بلاتا ہوں. قرآن کریم تاکید فرماتا ہے کہ اللہ تعالی کے پیروکاروں کو یہ طریقہ اپنانا چاہئے: ’’انا و من اتبعنی‘‘ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے تمام پیرو کاروں کی روش اور طریقہ یہی ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی کی دعوت دینا بصیرت کے ساتھ ہونا چاہئے، اور اگر یوں نہ ہوا (تشدد اور اجبار سے بلا گیا تو) اس کا خاتمہ یہ استبداد اور خفقان پر ہو گا جو نہ ہی اللہ تعالی اور نہ ہی اس کے رسول اور ائمہ اور نہ ہی شیعہ کا شیوہ ہے. حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی آسمانی رسالت کو خوش اخلاقی، تفکر حکمت اور نصیحت سے آگے بڑھایا. قرآن کریم بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رحمة للعالمین کا لقب دیتا ہے جو اپنی تئیس سالہ رسالت کے دوران اپنے دشمنوں کے ہاتھوں اتنا اذیت و آزار سہتے رہے لیکن حتی کہ ایک مرتبہ بھی کسی کو نفرین اور لعنت نہیں کی، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ان کے لئے ہدایت کی دعا فرماتے رہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اتنی مہربانی و مہر و محبت کے حامی پیغمبر کو غضبناک اور خونریز شخص کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے؟ کیا دشمنی ڈالنے کے علاوہ کوئی دوسرا فائدہ پایا جا سکتا ہے؟ تاريخ: 2013/03/09 ويزيٹس: 8781