Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حقوق نسواں
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: شيعہ مذہب ميں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے. اور اسي وجہ سے امام خميني رحمة اللہ عليہ کے بقول، ايک بہت غني اسلامي تہذيب ہے.
آپ کا ايران کے «مجلہ زنان» سے انٹرويو شيعہ مذہب ميں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے. اور اسي وجہ سے امام خميني رحمة اللہ عليہ کے بقول، ايک بہت غني اسلامي تہذيب ہے.
بسم اللہ الرحمن الرحيم
سوال. جناب آية اللہ صانعي، عورت اور مرد کي ديت کي برابري کو بيان کرنے کي اصلي وجہ کيا تھي؟
جواب. شيعہ مذہب ميں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے. اور اسي وجہ سے امام خميني رحمة اللہ عليہ کے بقول، ايک بہت غني اسلامي تہذيب ہے. انسانوں کو ہميشہ اس کي فکر رہتي ہے اور جاننا چاہتے ہيں کہ اسلام نے ان کے حقوق کے بارے ميں کيا فرمايا ہے.
ايک دن تھا جب ہمارے شيعہ فقہاء بہت محدود مسائل کو مطرح کيا کرتے تھے. اور جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ فوراً امام معصوم عليہ السلام کي زبان سے موجود روايت کو بيان فرما ديتے تھے. اس زمانے ميں اتنے فروعات انسان کے مورد ابتلا نہيں تھے. ليکن ائمہ معصومين عليھم السلام نے پہلے سے ہي سوچا تھا کہ بہرحال انسان ترقي کي راہ پر گامزن ہے. لہذا شواہد اور روايات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ائمہ معصومين عليھم السلام نے اجتھاد کا راستہ کھلا رہنے کے لئے اقدامات فرمائے ہيں. اور ايسے قواعد و ضوابط وضع کيے ہيں کہ جن کو مد نظر رکھتے ہوئے مذہب شيعہ کے علمي اور فقہي مراکز ہر زمانے کے مسائل کا جواب دے سکيں.
نتيجتاً آپ کا يہ سوال شايد دس ہزار يا اس سے بھي زيادہ مسئلوں اور فروعات کي طرف لوٹتا ہے جو شيعہ کي فقہي تاريخ ميں پہلے موجود نہيں تھے ليکن بعد ميں پيدا ہوئے ہيں. سادہ الفاظ ميں يہ کہ، آپ ديکھتے ہيں کہ حضرت امام خميني رحمة اللہ عليہ نے ٤٢ سال پہلے جديد مسائل کو پيش فرماتے ہيں. يعني مثال کے طور پر انسان کا چاند پر جانے کے مسائل، کُر کے پاني کا وزن کا مسئلہ، چاند پر مسافر کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا. انشورنس يا بيمے کے مسائل، چيک اور سفتہ (اشٹام) کي خريد و فروش اور اسي طرح تمام ايسے مسائل جن سے آج کل ہمارے واسطہ پڑتا ہے جبکہ کل تک ان ميں سے کسي کي ضرورت نہيں پڑتي تھي.
تو آپ کے سوال کا جواب يہ ہے کہ يہ کام علمي اور فقہ و فقاہت کے مراکز ميں طبيعي ہے کہ مستحدثہ مسائل يعني ايسے مسائل جو کل تک مورد ابتلاء نہيں تھے ليکن آج ان کي ضرورت کو محسوس کيا جاتا ہے، ان کي تحقيق کر کے ان کو حل کرنے کي کوشش کي جائے. صرف عورت اور مرد کي ديت کي برابري کا مسئلہ صرف مدنظر نہيں ہے. ہم نے کئي سالوں سے دسيوں اور مسائل کي بھي تحقيق کي ہے.
«يا ايھا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انثي و جعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارفوا» (حجرات/١٣). يہ آيت انسانوں کے حقوق کي برابري کے لئے سب سے بہتر آيت ہے. ہم اس تبعيض کو عادلانہ فرق نہيں بلکہ اس کو ظلم سمجھتے ہيں.
ہم نے تقريباً تيس سال قبل اپنے درس خارج ميں جو حرم حضرت معصومہ سلام اللہ عليھا کے صحن مبارک ميں ہوا کرتا تھا، اس ميں عورت کے قاضي ہونے کے بارے ميں اپنا نظريہ بيان کيا. اس وقت ہم نے اعلان کيا تھا کہ عورت بھي قاضي بن سکتي ہے. اور کھہ رہے ہيں کہ عورت کو حق ہے کہ اپنے لئے اپني مرضي کے مطابق جو چاہے کام انتخاب کرے اور اس ميں شريعت کے لحاظ سے کوئي حرج نہيں ہے.
سوال. کچھ ايسے موارد جو آپ نے فرمائے ہيں ان کے بارے ميں فقہ شيعہ ميں پہلے سے کوئي مخالفت نہيں تھي، ليکن عورت اور مرد کي ديت کي برابري کے بارے ميں تو معتبر روايتيں موجود ہيں جو ان دونوں کي ديت ميں فرق کو ظاہر کرتي ہيں. آپ کا ان روايات کے بارے ميں کيا نظريہ ہے؟
جواب. آپ کي اس فرمايش کا مطلب يہ ہے کہ اگر کسي ايسے مورد ميں جہاں بعض فقہاء نے ايک روايت کے مطابق فتوا ديا ہو يا تمام فقہاء نے بعض روايات کے مطابق فتوا ديا ہو تو دوسروں کو اس کے خلاف اظہار نظر کرنے کا حق نہيں ہے. اور يہ تو وہي باب اجتہاد کے بند ہونے پر دلالت کرتا ہے. يہ صحيح ہے کہ روايات بھي موجود ہيں اور فقہاء نے فتوے بھي ديے ہيں، ليکن اجتہاد کي راہ کھلي ہے اور دوسرا کوئي فقيہ بھي مسائل کي تحقيق کر سکتا ہے اور بالکل وہي فقہي رويے کو اختيار کر کے اور ان ہي فقہي طريقوں کو اپناتے ہوئے، دوسرے مسائل بيان کر سکتا ہے.
ہم چاہتے ہيں کہ حضرت امام خميني رحمة اللہ عليہ کے بارے ميں ايک مثال دينا چاہتا ہوں. زمين کے اندر موجود منابع کے بارے ميں سب فقہاء نے بحث کي ہے اور فتوے ديے ہيں کہ وہ تمام منابع اور ذخيرے، زمين کے مالک کے ہوں گے. اب آئے فرض کيجئے کہ ايک آدمي کے پاس ايسي زمين ہے جس ميں تيل يا فولاد يا پيتل کي کان ہے. حضرت امام خميني رحمة اللہ عليہ کا نظريہ يہ تھا کہ ايسے منابع حکومت اور بيت المال مسلمين کي ملکيت ہيں، نہ اس شخص کے. حضرت امام خميني رحمة اللہ عليہ کا يہ فتوا تھا حالآنکہ دوسرے سب فقہاء نے تفصيلي طور پر اس مسئلے پر بحث کي ہوئي تھي.
ہمارے فقہ ميں ايسے بہت سے مسائل موجود ہيں جن کو بعض فقہاء نے فرمايا ہے ليکن دوسروں نے ان کے بعد آ کر ان کے خلاف فتوا ديا ہے چاہے وہ پہلے مسائل روايات ميں ہي کيوں نہ ائے ہوئے ہوں. ليکن اصل مسئلہ يہ ہے کہ يہ تمام تحقيق فقہي طريقے سے انجام پائے.
سوال. آپ نے ان فتووں اور روايات کا کيسے جواب ديا ہے؟
جواب. يہ بحث ايک عام گفتگو اور غير علمي بات چيت کي حد سے بہت گہري ہے. (يہ جگہ اس بحث کو چھيڑنے کے لئے مناسب نہيں ہے). اس کو علمي مراکز اور ديني مدارس ميں دقت سے تحقيق کي ضرورت ہے. ميں نے ان علمي مراکز ميں دقت کي ہے اور جلد ہي انشاء اللہ کتاب کي صورت ميں «کتاب القصاص» کے نام سے شايع ہو گي جو مدرسہ فيضيہ ميں ہمارے خارج کے دروس کا مجموعہ ہے. يہ ميرے اپنے لئے حجت اور دليل ہے اسي ليے ميں عذر رکھتا ہوں اسي طرح جو ميرے مقلد ہوں گے ان کے لئے بھي يہ عذر اور دليل ہے. ليکن ممکن ہے دوسروں کو يہ بات پسند نہ آئے.
ہمارے ہاں دو قسم کي ديت ہے : ايک «حقوقي» اور دوسري «جزائي» ديت. جزائي ديت وہ ہوتي ہے جہاں قصاص کا مقام ہو ليکن ديت دينا چاہيں. جزائي ديت کي بحث کو يہاں نہيں چھيڑتے. حقوقي ديت ايسے موارد ميں ہوتي ہے جہاں پر مثال کے طور پر کسي ايکسيڈنت يا کسي حادثے ميں کوئي مرد ايک عورت کو مار ديتا ہے، يا کوئي عورت دوسري عورت کو مار ديتي ہے. ہم نے يہاں پر جناب آية اللہ مقدس اردبيلي کي بحث کي طرف اشارہ کيا ہے جو فرماتے ہيں کہ : «ما اطلعت عليہ من نص» (ميں نے ايک روايت بھي اس بارے ميں نہيں پائي). (مجمع الفائدہ و البرھان، ج ١٩، ص ٣١٣). وہ روايتيں جن کي طرف آپ نے اشارہ فرمايا ہے وہ قصاص کے باب ميں ہے. نہ کہ حقوقي ديت کے سلسلے ميں. حقوقي ديت کے باب ميں بھي ايسي کوئي روايت نہيں جو يہ کہتي ہو کہ عورت کي ديت مرد کي ديت کي آدھ ہے. يہ فقہاء کا کام تھا جو قصاص کي روايات کو حقوقي ديت کے باب ميں لے آئے ہيں.
تو جناب مقدس اردبيلي کے قول کے مطابق اس بارے ايک روايت بھي موجود نہيں ہے. بلکہ فقہاء نے قصاص کے باب کي روايات کو يہاں پر سرايت دي ہے. يہ فقہاء کا اجتہاد تھا. آپ وسائل الشيعہ کي جلد نمبر ١٩ صفحہ نمبر ١٥١ کو ملاحظہ فرمائيے. جو ہمارے ہاں بحار الانوار اور وافي جيسي تين جوامع حديثي کتابوں ميں سے ايک ہے. وہاں پر ايک عليحدہ باب ميں جس کا يہي عنوان ہے کہ «عورت کي ديت، مرد کي ديت کا آدھا حصہ ہے»، تمام روايات جو جمع کر کے وہاں بيان کي ہيں ان کي تعداد صرف چار روايتيں ہيں. ان ميں سے دو روايتيں (يعني اس بارے ميں موجود تمام روايتوں ميں سے آدھي روايتيں) اس باب کے عنوان سے بالکل متعلق نہيں ہيں بلکہ عمدي قتل اور جزائي ديت سے متعلق ہيں. (حديث نمبر ٢ اور ٤) اور ان ميں سے ايک حديث يعني پہلي حديث، مطلق ہونے کي وجہ سے (نہ کہ ظہور لفظي کي بنا پر) حقوقي ديت کو بھي شامل ہے. اگرچہ يہاں پر بھي اسي روايت کا ذيلي حصہ جزائي ديت کي بحث سے متعلق ہے. اس کے علاوہ جہاں پر اطلاق کا مسئلہ آ جائے تو وہاں پر مخاطب کے لحاظ سے قدر متيقن کا لحاظ کرنا بھي ضروري ہوتا ہے. ليکن اس حديث کا اصلي مسئلہ اس کي سند ہے جس ميں تين اشکال ہيں جن کو اس روايت کي اصلي جگہ يعني(کتاب القصاص) کے غير عمدي قتل کے باب ميں ہم نے بيان کيا ہے. اس روايت پر اعتماد نہيں کيا سکتا ہے. چار حديثوں ميں سے صرف ايک حديث باقي رہ گئي يعني تيسري حديث جو صحيحہ ہے. ليکن اس حديث کا ذيلي حصہ دوسري روايات کے ساتھ منافي ہے، اس حصہ پر عام طور پر عمل نہيں کيا جاتا. اس روايت کا ذيلي حصہ اس کي ابتدا کو بھي نقصان پہنچا رہا ہے (يعني اس روايت کے ابتدائي حصے پر عمل کرنے سے بھي روک سکتا ہے). اس کے علاوہ اس حديث کا صرف غير عمدي قتل کے بارے ميں ہونے کے بارے ميں بھي کچھ اشکالات ہيں جو اپني جگہ پر بيان کيے جا چکے ہيں.
وسائل الشيعہ ميں اس باب سے متعلق موجود روايات کے بارے ميں اس بہت ہي مختصر توضيح سے پتہ چلتا ہے کہ مقدس اردبيلي (قدس سرہ الشريف) کو حضرت امام علي عليہ السلام کے حرم اور نجف ميں باب العلم کے جوار ميں رہتے ہوئے، کيا کيا برکتيں اپني عمر ميں حاصل کي ہيں. اور ابوالائمہ حضرت علي عليہ السلام کي طرف سے ان پر کتنے احسانات ہوئے ہيں.
سوال. براہ کرم! جزائي اور حقوقي ديت کے بارے ميں تھوڑا تفصيل سے بتائيے؟
جواب. فقہاء کے درميان يہ مشہور ہے کہ اگر کسي مرد نے کسي عورت کو قتل کر ديا ہو اور اگر اس کے وارث (اولياء دم) اس کا قصاص لينا چاہيں تو پہلے قاتل کو ديت کا آدھا حصہ ديں گے پھر اس کو قصاص کي سزا دي جائے گي.
يا مثلاً جسم کے کسي حصے کے کاٹنے کے بارے ميں، عورت کي ديت مرد کے برابر ہے يہاں تک کہ جسم کے اعضاء کے تيسرے حصہ تک پہنچ جائے. اس کے بعد ديت آدھي ہو جاتي ہے. اس باب کي روايات بھي جزائي ديت کے بارے ميں ہيں. ايک اور مورد اعضاء کا قصاص ہے جہاں اگر کسي عورت کے جسم کے کسي حصے کے کاٹنے کے مقابلے ميں، مرد کا وہ حصہ کاٹنا چاہيں تو ديت کي کچھ مقدار مرد کو دينا ہوتي ہے.
تو ايک ديت حقوقي ہوتي ہے جہاں ضمانت اور خسارت کا جبران کرنا ہوتا ہے ليکن اس کے کئے ہوئے کام کي کوئي سزا نہيں ہوتي ہے. اگر کوئي شخص اکسيڈنت ميں کسي دوسرے آدمي کے قتل کا باعث بنتا ہے تو اس شخص کو قاتل نہيں کہا جائے گا. في حد نفسہ قتل کرنے کي کوئي سزا نہيں ہوتي کيونکہ معنوي عنصر يعني جنابت اس ميں موجود نہيں تھي اور وہ شخص اسے قتل کرنے کا ارادہ نہيں رکھتا تھا.
ہم نے جزائي قوانين ميں تعزيرات (جرمانوں) کو رکھا ہے. اگر کسي کے پاس ڈرائيونگ کرتے وقت لائسنس نہ ہو يا اور کوئي جرم کيا ہو تو اس کے لئے کچھ سزائيں مقرر ہيں. ليکن کيونکہ يہ قتل عمدي (جان بوجھ کر) نہيں تھا، اس ميں جنايت (ظلم) کا عنصر موجود نہيں تھا. اور اس کے باطن ميں جرم کا عنصر موجود نہيں تھا. لہذا يہ جرم قتل نہيں مانا جائے گا. بلکہ خسارت ہے. (جسے جبران کيا جائے گا). اس مسئلہ(يعني حقوقي ديت) کے باب ميں جيسا کہ پہلے بيان کر چکے ہيں کوئي معتبر روايت موجود نہيں.
سوال. تو پھر فقہاء نے کس بنا پر عورت کي ديت کو مرد کي ديت کا آدھا حصہ بتا يا ہے؟
جواب. ان حضرات نے جزائي ديت کي روايات سے حقوقي ديت کا استفادہ کيا ہے اور ان کو يہ حق پہنچتا تھا کہ يوں استفادہ کريں، اور ان کا يہ استفادہ بھي اجر سے خالي نہيں ہوگا اور ان کے پاس عذر بھي ہے. ليکن اس کا يہ مطلب نہيں کہ ہم بھي ان ہي کي تبعيت کريں. ہم نے اس قسم کي برداشت کو قبول نہيں کيا ہے، جيسا کہ مقدس اردبيلي نے بھي فرمايا ہے کہ اس باب ميں ايک روايب بھي نہيں ملي ہے. يعني جبران خسارت کي ديت کے باب ميں ايک روايت بھي موجود نہيں ہے. جب گذشتہ سالوں ميں ہم مطالعہ کرتے تھے تو ہميں تعجب ہوتا تھا کہ يہ کيسے ممکن ہے کہ حقوقي ديت کے بارے ميں مقدس اردبيلي کو ايک روايت بھي نہيں ملي، حالآنکہ اتني روايات موجود ہيں. ليکن بات اصل ميں يہي تھي کہ ہماري نظر بھي ان جزائي ديت والي روايات پر تھي. اس کے اگلے سال ہي ہم نے شرح ارشاد کے حاشيہ ميں لکھا کہ مقدس اردبيلي صحيح فرماتے ہيں، اور وہ سب روايات جزائي ديت کے بارے ميں ہيں حالآنکہ مقدس اردبيلي حقوقي ديت کے بارے ميں بات کر رہے ہيں اور وہ اس چيز کو نہيں مانتے کہ ان روايات سے حقوقي ديت کي طرف رجوع کيا جائے اور فرماتے ہيں کہ اس ديت کي بارے ميں خاص طور پر روايات موجود نہيں ہيں.
اس وقت ہم تفصيل نہيں بتا سکتے کہ جزائي ديت کے بارے ميں ہم نے کس طرح جواب ديا ہے کہ يہ روايتيں خود اپنے متعلقہ موارد ميں بھي حجيت نہيں رکھتيں چہ جائيکہ عمدي (جان بوجھ کر) قتل کرنے کے مورد سے غير عمدي مورد کي طرف سرايت کي جائے. صرف اجمالي طور پر اتنا بتاتے ہيں کہ ہماري نظر ميں جزائي ديت کي روايات، قرآن سے مخالفت رکھتي ہيں اور جو روايت بھي قرآن سے مخالفت رکھتي ہو وہ حجيت نہيں رکھتي.
روايات ميں خاص شرائط کو لحاظ کيا جاتا ہے. وہ باتيں (روايات) جو حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم يا حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ عليھا يا ائمہ معصومين صلوات اللہ عليھم اجمعين سے نقل ہوئي ہيں، اگر قرآن کريم يا مسلم اصول و ضوابط کے مخالف ہوں يا فطري اور بديھي عقل سے مخالفت رکھتي ہوں تو وہ معتبر نہيں ہوں گي اور ہم کو چاہئے کہ ان پر عمل نہيں کريں.
ہم ايسي روايات کو ظلم سمجھتے ہيں جو يہ کہتي ہيں کہ اگر کسي مرد نے اپني بيوي کو قتل کر ديا اور اب اس کے خون کے مالک اس مرد کو مارنا چاہيں تو ان کو چاہيے کہ ديت کا آدھا حصہ پہلے مرد کے اولياء کو ادا کريں، ليکن اس کے بر عکس ايسا نہيں ہے. يعني اگر کوئي عورت کسي مرد کو مار دے تو آساني سے اس کو بغير کسي چيز کے ديے قصاص کر ديا جائے گا.
ہماري نظر ميں اس کا، ان قرآني آيات کے ساتھ کوئي تطابق نہيں ہے جو کہتي ہيں کہ «اسلام کے قوانين عدل و انصاف پر مبني ہيں. اور اسلام ميں کہيں کوئي ظلم موجود نہيں ہے». ہماري اس نظر کي وجہ قرآن کريم کي يہ آيت کريمہ ہے جس ميں کہا گيا ہے کہ «يا ايھا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انثي و جعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارفوا» (حجرات/١٣). يہ آيت انسانوں کے حقوق کي برابري کے لئے سب سے بہتر آيت ہے. ہم اس تبعيض کو عادلانہ فرق نہيں بلکہ اس کو ظلم سمجھتے ہيں.
يہ ہمارا نظريہ ہے اور ايسا نظريہ رکھنے کے لئے ميں معذور ہوں (حق بجانب ہوں اور اس پر مجھ سے کوئي مؤاخذہ نہيں کيا جائے گا، کيونکہ يہ ہمارا اجتھاد ہے). ہم اس تبعيض کو ظلم سمجھتے ہيں. اور اس قسم کي روايات جتني بھي زيادہ ہوں، ان کا کوئي فائدہ نہيں ہوگا. جيسا کہ بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ اس موضوع ميں مثلاً سينکڑوں روايات موجود ہيں، مثال کے طور پر قرآن کريم ميں تحريف ہونے کے بارے ميں. يا سھو النبي کے بارے ميں جو روايات موجود ہيں جو اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ (نعوذ باللہ) حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے اشتباہ يا خطا سر زد ہو سکتي ہے، ليکن (ان روايات کي کثرت کے با وجود) تقريباً ہمارے تمام فقہاء ان روايات کو عقل اور قرآن کريم کا مخالف سمجھتے ہيں، اور ان کو رد کرتے ہيں. فقہاء ميں سے صرف ايک يا دو کا يہ نظريہ نہيں ہے. اس موضوع سے ملتي جلتي دوسري ايسي کئي جگہيں ہيں جو اب ان کا ذکر ضروري نہيں ہے.
تو اصلي ضابطہ ہمارے لئے يہ ہے کہ روايات صدقاً اور عدلاً قرآن سے مخالفت نہ رکھتي ہوں. اور ہم نے ان روايات کو قرآن کريم کي ان آيات سے موازنہ کيا ہے جو يہ فرماتي ہيں کہ اسلام کے قوانين عدالت پر مبني ہيں. اور عدالت ايک مسلم اصل ہے جو اصول دين ميں سے ہے نہ کہ فروع دين ميں سے، اور ان روايات کو قرآن کا مخالف پايا ہے. ہماري نظر ميں يہ عدالت نہيں بلکہ ظلم ہے. اور عرف يعني کہ عام لوگوں کي نظر ميں بھي يہ ظلم ہے. ہاں البتہ کوئي يہ کہہ سکتا ہے کہ کيونکہ يہ اللہ تعالي کا فرمان ہے اس لئے اس کو مان ليتے ہيں. ليکن اللہ تعالي کے فرمان کو روايات سے ہي سمجھا جا تا ہے. ليکن کسي ايک فقيہ نے اس نکتے کي طرف توجہ نہيں کي اور نہيں فرمايا اور وہ اس سلسلے ميں حق بجانب بھي ہے. کل تک اس ميں کوئي مسئلہ نہيں تھا کہ ممکن ہے يہ ظلم ہو. کيونکہ کوئي عورت قتل نہيں کي جاتي تھي. کوئي ايکسيڈنت نہيں ہوتا تھا، ليکن جب اس کي بات چلتي ہے تو ہم ديکھتے ہيں کہ سب اس کو ظلم سمجھتے ہيں.
يقينا وہ متدين اور متعبد شخص (فقيہ) بھي يوں کہتا ہوگا کہ احکام اسي طرح ہيں چاہے ان کي ہميں سمجھ نہ آئے ليکن اللہ تعالي تو سمجھتا ہے، تو ايسا شخص بھي اللہ تعالي کي نظر ميں عذر رکھتا ہے. ليکن يہاں ايک اور بحث پيش آتي ہے اور وہ يہ کہ يہ عدالت جو ہم قائل ہيں کہ اسلام ميں موجود ہے يا يہ عقل جس کو ہم اسلامي احکام ميں حاکم سمجھتے ہيں، کيا شيخ الطايفہ (شيخ طوسي) نے جب اس روايت کو ملاحظہ فرمايا تو يوں فرماتے ہيں: يہ قرآن کي آيت جس ميں «النفس بالنفس» کہا گيا ہے اس آيت کے خلاف ہے. ہماري نظر ميں بھي يہ روايتيں النفس بالنفس کي مخالف ہيں. تو يہ عدالت کي بھي مخالف ہيں اور النفس بالنفس کي بھي مخالف ہيں.
قرآن مجيد فرماتا ہے: النفس بالنفس، (مائدہ/٤٥)، ليکن آپ فرماتے ہيں کہ اگر کسي مرد نے عورت کو قتل کر ديا ہو اور اس عورت کا قصاص لينا چاہيں اور اس مرد کو مارنا چاہيں تو ان کو چاہئے کہ ديت کا آدھا حصہ مرد کو ديں! يہ قرآن کي مخالفت ہے. يہ فقہي بحثيں ہيں جن کو ہم نے اپني کتاب «القصاص» جو امام خميني (رحمة اللہ عليہ) کي کتاب «تحرير الوسيلہ» کي شرح ہے، ميں تفصيل سے بيان کيا ہے، انشاء اللہ جب چھپے گي، وہاں پر ملاحظہ فرمائيں گے.
کچھ بحث کو سادہ کر کے بات کرتے ہيں. عدل کي بحث ميں بھي ملاحظہ فرمائيے کہ مرد کما کر لاتا ہے ليکن عورت اس طرح نہيں ہے ....
يہ مسئلہ عدالت کو قائم نہيں کر سکتا، کيونکہ يہ مسئلہ صرف ان مردوں کے لئے صحيح ہو گا جو کما کر لاتے ہيں (ليکن ايسے مرد جو نہيں کماتے ان کا کيا بنے گا؟) حالانکہ قانون صرف مرد اور عورت کو جانتا ہے اور اس ميں يہ چيز اہميت نہيں رکھتي کہ کون کما کر لاتا ہے اور کون نہيں کماتا. اس صورت ميں جو عورتيں اپنے گھر کے لئے کما کر لاتي ہيں وہ بھي اس ميں شامل ہو جائيں گي. ليکن قانون ميں تو چھوٹي لڑکي اور چھوٹا لڑکا بھي شامل ہوتے ہيں، حتي کہ يہاں تک کہا گيا ہے کہ شکم مادر ميں موجود بچہ کے يہ محرز ہو جائے کہ جنين لڑکا ہے يا لڑکي تو اس صورت ميں بھي لڑکي کي ديت لڑکے کي ديت کا آدھا حصہ ہو گي. حالانکہ وہاں پر کمائي والا مسئلہ بالکل وجود نہيں رکھتا. ايسا فرد جو ريٹائر ہو چکا ہو اور اب کماتا نہ ہو اس کو کون سي شق ميں داخل کرو گے؟ اگر يہ عدالت ہے تو پہلے تو يہ مذکورہ موارد قانون ميں داخل نہيں ہوتے اور قانون صرف بعض افراد کے ليے پيش کيا گيا ہے. دوسرا يہ کہ آپ کو يوں کہنا چاہيے کہ کمانے والے مرد کو مارنے کي يہ سزا ہے اور کمانے والي عورت کي يہ سزا ہے. ہماري کسي بھي روايت ميں يوں بيان نہيں کيا گيا کہ عورت کي ديت اس لئے نصف ہے، کيونکہ مرد کما کر لاتا ہے. اس چيز کو پہلي بار شھيد بہشتي نے ديت کے قانون کے بارے ميں اپني ايک تقرير ميں بيان فرمايا تھا. کيونکہ وہ اس وقت اس فرق کا جواب دينے پر مجبور ہو گئے تھے. انھوں نے يوں فرمايا تھا کہ کيونکہ مرد کما کر لاتا ہے اس لئے ہم نے قانون کو اس طرح بنايا ہے. ليکن کسي بھي روايت ميں يہ مسئلہ اس طرح بيان نہيں کيا گيا ہے. ليکن ہم کہتے ہيں کہ ہمارے لئے عدالت کا مسئلہ سب سے زيادہ اہميت رکھتا ہے. اس لئے کہتے ہيں کہ چاہے مرد کما کر لانے والا ہو يا عورت کما کر لاتي ہو يا وہ دونوں نہ کماتے ہوں، ان ميں کوئيں فرق نہيں ہے تو کيا قانون کو اس طرح بنانا چاہيے، حالانکہ کسي بھي فقيہ نے اس طرح نہيں کہا ہے.
ليکن بچے کے بارے ميں کہا جا سکتا ہے ...
... آپ کہہ سکتے ہيں يا اسلام يہ کہتا ہے ، يہاں پر دو باتيں ہيں.
ہماري بحث عدالت کے بارے ميں ...
ہم يہ کہتے ہيں کہ کيا يہ آپ کا کہنا ہے کہ عدالت يوں ہے کہ مرد کمانے والا ہو يا عورت يا يہ چيز اسلام نے کہي ہے؟ اس کا مطلب يہ ہے کہ يہ صاف ظاہر ہونا چاہئے.
ہم آپ کو يہ بتا ديں کہ بالکل ديت کے باب کو کما کر لانے کے باب سے ہماہنگ نہيں کيا جا سکتا. کيونکہ يہ دو بحثيں بالکل ايک دوسرے سے عليحدہ ہيں. کيوں؟ کيا آپ بتا سکتے ہيں کيوں؟
ديت، انسان کے خون کي قيمت ہوتي ہے. اگر کسي انسان کے نہ ہاتھ ہوں نہ اس کے پاؤں، نہ آنکھيں ہوں اور نہ کان، صرف ايک انساني روح رکھتا ہو، اس شخص کي ديت اور ايسے فرد کي ديت جو آنکھيں رکھتا ہو، خون رکھتا ہو، ان دونوں کي ديت برابر ہے. ديت کا گھر کے لئے کمانے سے کوئي تعلق نہيں ہے. ديت ميں خون کي قيمت کي بات ہو رہي ہے. ايک انسان کي جان کي اہميت کے بارے ميں بات ہو رہي ہے. البتہ اس کي اہميت کو مالي لحاظ سے اہميت دينے سے تشبيہ کي گئي ہے. اس خون کي قيمت اور اس انساني جان کي اہميت کا روزگار کمانے سے کوئي تعلق نہيں ہے. اگر يوں ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے کہ فلان شخص نے بچے کا قتل کيا ہے تو اس پر بالکل ديت واجب نہيں ہے. کيونکہ بچہ بالکل پيسہ نہيں کماتا تھا، (يا مثلا) ماں کي شکم ميں موجود جنين کے قتل کرنے کي کوئي ديت نہيں ہے، بوڑھے مرد يا بوڑھي عورت کي کوئي ديت نہيں ہے، معاشرے ميں نکمے لوگ (جو کام نہيں کرتے) کے قتل کي کوئي ديت نہيں ہے کيونکہ وہ کمانے والے نہيں ہيں. بالکل ديت کي بحث، کمانے کي بنياد پر نہيں ہے تا کہ ہم عدالت کا اس سے موازنہ کر سکيں. ديت کي بحث، خون کي قيمت کي بات ہے. اسلام کے آنے سے پہلے بھي يہ معاشرے ميں جاري تھا، جيسا کہ روايت ميں آيا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے سو اونٹ کو حضرت عبداللہ کے لئے ديت قرار ديے تھے اور يہ بعد ميں سنت بن گئي. (وسائل الشيعہ جلد ١٩، صفحہ ١٥١، ابواب ديات النفس، باب نمبر ١ حديث نمبر ٤). خون کي قيمت لينا اسلام سے پہلے بھي مرسوم تھا، اصلا يہ کہا جاتا ہے کہ لفظ «ديت»، «منع» اور «عقل» يعني روکنے کے معني ميں ہے. ديت کے ذريعہ دوسرے لوگوں کو مارے جانے سے بچايا جاتا ہے اور يہ خسارت کو جبران کرنے کے لئے ہے. قصاص ميں اصل بات، مشابہ برتاؤ ہے. ياد رکھئے کہ يہ بالکل غلط بات ہے جو کہا جاتا ہے کہ اسلام انسان کو مارنے کا حکم ديتا ہے. اور کہتا ہے کہ فلان شخص کو مار ديا جائے. ہر گز ايسا نہيں ہے. بلکہ اسلام ميں مشابہ برتاؤ کا کہا گيا ہے نہ کہ انساني جانوں کو قتل کرنا. اس کے علاوہ، مقتول کے وارثوں کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ معاف بھي کر سکتے ہيں. اگر کسي عورت نے، دوسرے مرد کو قتل کر ديا ہو تو اس کو قتل کيا جاتا ہے اور اس کے لواحقين کو بھي کچھ نہيں ديا جاتا. يہ کيسي بات ہے کہ ايک جيسے جرم کي سزا ميں ايک جگہ قاتل کو اگر مارا جائے تو اس کے لواحقين کو پيسہ ديا جاتا ہے، ليکن دوسري جگہ قاتل کو ما ديا جاتا ہے اور اس کے لواحقين کو پيسہ نہيں ديا جاتا؟! يہ النفس بالنفس کے بر خلاف ہے. يہ عدالت کے خلاف ہے، يہ قرآن کريم ميں موجود ظلم کي نفي کرنے والي آيات کے مخالف ہے.
کيا آپ نے کئي سال ملک کے چيف جسٹس رہنے کي وجہ سے، اس مسئلہ کي بات چھيڑي ہے؟
بالکل نہيں، اس کا اس سے کوئي تعلق نہيں ہے. يہ ہميشہ سے حوزہ علميہ کا وتيرہ رہا ہے کہ سوال کيے جاتے ہيں اور ہم ان کے جوابات ديتے ہيں. ہمارا تمام علم کلام، ہماري فقہ ميں تمام اشکال اور ان کے جواب اسي طرح ہوتے ہيں. اس مسئلہ کو اس پيرايے ميں ديکھنا چاہئے کيونکہ (جس بحث کا آپ نے سوال ميں تذکرہ کيا ہے)، ايسي بحث سے فقہ کي اہميت ختم ہو جاتي ہے، ہر فعال يونيورسٹي اور حوزہ علميہ کو چاہئے کہ جب کوئي سوال پيش آئے تو اس کا جواب ڈھونڈھنے کي کوشش کرے.
تو آپ کے بيان فرمائے ہوئے ظلم اور عدل کي نسبت ان روايات کے مقابلہ ميں کيا ہوگي جن کو دوسرے روائتي نظريہ ميں حجت قرار ديا گيا ہے؟
يہ بھي سنت ہے، خود يہ ايک سنت ہے.
ليکن عدل کي خلاف ورزي تھي ...
يہ چيزيں خود ائمہ معصومين عليھم السلام نے ہميں بتائي ہيں، نہ يہ کہ يہ سنت کي مخالف ہوں.
حوزہ ہائے علميہ (ديني مدارس) ميں جو اجماع موجود ہے اس کے مطابق، قرآن کريم کي آيات، سنت کے ذريعہ جو شرعي حجت ہوتي ہے، تخصيص اور تقليد کے قابل ہوتي ہيں.
خود حوزہ ہائے علميہ کي يہ روش رہي ہے کہ ايسي روايات جو قرآن کي مخالف ہوں، ان کو چھوڑ ديا جاتا ہے، يہي ہماري فقہ ہے.
ليکن جب روايات کے ذريعہ تخصيص لگائي جاتي ہے ...
بہت خوب، اب آپ تخصصي بحث ميں وارد ہونا چاہتے ہيں اور ان سب سوالوں کے جواب موجود ہيں. جواب يہ ہے: بعض قرآني عمومات کي لسان اس قسم کي ہوتي ہے جہاں پر تخصيص نہيں لگائي جا سکتي. يہ ايک قانون ہے کہ قرآن کريم ميں بعض موارد ايسے ہيں جو «آبي من التخصيص» يعني تخصيص لگائے جانے سے ابا کرتے ہيں، مثلاً جہاں پر قسم کے ساتھ بات کي گئي ہو يا سختي سے بات کي گئي ہو وہاں پر تخصيص نہيں لگائي جا سکتي، «و لکم في القصاص حياة يا اولي الالبات» (بقرہ/١٧٩) يہ تخصيص لگائے جانے کے قابل نہيں ہے. انساني زندگي کو مشابہ برتاؤ سے حفظ کيا جا سکتا ہے. يہ ان اصول ميں سے ہے جس کو (روايات کے ذريعہ) مقيد نہيں کيا جا سکتا. «النفس بالنفس» (مائدہ/٤٥) يہ قرآن کے جملات ميں سے ہے، ان سب مسائل کو مد نظر رکھا گيا ہے.
١. قرآن کي مخالف روايات کبھي حجت نہيں ہوتيں.
٢. ہماري نظر ميں يہ روايات اس آيت کي مخالف ہيں. «النفس بالنفس» اور ايسي آيات کي بھي مخالف ہيں جن ميں ظلم کي نفي کي گئي ہے.
٣. اس قسم کي آيات کي زبان حال سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ آيات تخصيص لگانے کے قابل نہيں ہيں
٤. قرآني آيات کے بارے ميں مشہور ہے کہ ان کو روايات کے ذريعہ تخصيص لگائي جا سکتي ہے. اس چيز کو ہم بھي کسي حد تک قبول کرتے ہيں. ليکن بات يہ ہے کہ مذکورہ آيات تخصيص لگائے جانے کے قابل نہيں ہيں. ہم طالب علموں ميں ايک بات مشہور ہے کہ «حفظت شيئاً و غابت عنک اشياء» (ايک چيز کي حفاظت کے لئے دوسري کئي چيزيں ہاتھ سے دے بيٹھے ہو) آپ کو يقين ہونا چاہئے کہ ہم نے يہ سب مسائل اپني تخصصي بحثوں ميں بيان کئے ہيں، آپ کا جواب بھي يہي ايک بات ہے کہ اس قسم کي آيات، کو روايات سے تخصيص نہيں لگائي جا سکتي.
تو آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق بہت سے دوسرے مسائل بھي اس ميں داخل ہو سکتے ہيں.
ہرگز نہيں، حتي کہ ايک مورد بھي آپ کو نہيں ملے گا، جہاں پر بھي ہو ہم آپ کو دکھا سکتے ہيں. البتہ بعض مسائل کو عدالت کے خلاف اور مرد کا عورت سے قصاص لينا اور اس قسم کے دوسرے مسائل بيان کئے گئے ہيں جو ہماري نظر ميں صحيح نہيں ہيں، ليکن اسلام ميں کہيں بھي عدالت کے خلاف کوئي حکم موجود نہيں ہے.
معاف کيجئے گا! ميرا مقصد يہ تھا کہ اس جيسے موارد بھي موجود ہيں ...
کہاں پر؟ !
مثال کے طور پر عورت کي گواہي کے بارے ميں ...
اس کے بارے ميں بھي بات کريں گے. عورت کي گواہي، طلاق اور ايک دو مورد ميں آئي ہے، اس کي گواہي حجت نہيں ہے اور ہم نے اس سے پہلے عورت کے گواہي دينے کے بارے ميں اپنے درس خارج ميں کتاب الشھادات ميں شايد دس دن صرف اسي سلسلے ميں بات کي ہے. ہم نے وہاں پر بھي اصل کے مطابق، عادل عورت کي گواہي دينے کو ايک عادل مرد کي گواہي کے برابر سمجھا ہے اور اسي چيز کو اصل قرار ديا ہے. خاص طور پر خواتين سے متعلقہ امور کے بارے ميں. خواتين کے امور کے سلسلے ميں خود ان کي گواہي، مردوں کي گواہي پر مقدم ہے، وہ جو کچھ قرآن ميں آيا ہے وہ باب علت کے بارے ميں ہے «العلة تخصص کما انھا تعمم».
ہم نے اس آيت کو صرف اپنے مورد ميں محصور سمجھا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے موارد ميں روايات کے مطابق، نظريہ پيش کيا ہے کہ مرد اور عورت کي گواہي برابر ہے. ليکن حدود کے باب ميں جہاں پر اصل يہ ہے کہ چشم پوشي کي جائے، وہاں پر ہم نے بتايا ہے کہ ايسے موارد ميں ہزاروں عورتوں کي گواہي بھي قبول نہ ہو گي، چہ جائيکہ چار يا چھ اور ان کے ساتھ ايک مرد. حدود کا باب ايک عليحدہ موضوع ہے. باب حدود، اور عرضي امور کا باب. عرضي امور کے باب ميں اگر تين مرد گواہي ديں ليکن چوتھا نہ آئے تو وہاں پر کيا کيا جاتا ہے؟ ان ميں سے ہر ايک کو اسي (٨٠) کوڑے مارے جاتے ہيں. يہ کوڑے مارنا مصلحت کي بنا پر ہے. يہ کوڑے کھانے والے کو عدالت سے خارج نہيں کرتے. ہميں کيا کرنا چاہئے کہ جو ہم نے اسلام کو مشکل شرائط ميں ڈال ديا ہے جن سے اب فرار کرنا مشکل ہو رہا ہے. اسلام نے ايسے موارد کا اس طريقے سے سد باب کيا ہے کہ حتي گواہ بھي گواہي دينے کے لئے بہت سوچ سوچ کے بعد آئيں.
ہم نے باب حدود ميں دو مردوں کي بجائے چار عورتوں کي گواہي دينے کو نہيں مانا، يعني کے عدالتي قوانين کسي کي عزت اور ناموس سے متعلق مسائل کي حفاظت کے لئے بہت سخت ہيں اور ان کي تفسير بھي سخت ہوني چاہئے، اور يہي معني روايات اور فتووں سے ظاہر ہوتا ہے. وہاں پر دو مردوں کي گواہي بھي کافي نہيں ہے بلکہ چار مرد ہونے چاہئيں. ہم نے خواتين کي گواہي کو نہيں مانا کيونکہ جيسا کہ پہلے بھي بتا چکے ہيں باب حدود، باب درء اور تخفيف کا باب ہے اور چشم پوشي اور عدم ثبوت کا باب ہے. ليکن دوسرے موارد ميں ہم نے کہا ہے کہ عورت اور مرد کي گواہي ايک جيسي ہي.
باب طلاق ميں گرميوں کے سيزن ميں ہم نے بحث کي ہے کہ طلاق مرد کے اختيار ميں ہے، ليکن اگر عورت کو کسي مرد کے ساتھ زندگي گزارنے ميں دقت ہو رہي ہو تو مرد پر واجب ہے کہ عورت کو خلع کي طلاق ديدے يعني عورت اپنا سارا حق مہر بخش دے اور اس کے بدلے ميں مرد سے طلاق لے لے.
ہم نے اسلام ميں ايک بھي عدالت کا مخالف حکم نہيں پايا. اور اسي طرح تبعيض بھي نہيں ہے. ايک جگہ ميں يہ فرق نظر آتا جو وہاں پر بھي يہ فرق صحيح ہے اور عين عدالت ہے اور اس کا انکار نہيں کر سکتے اور کرنا بھي نہيں چاہئے. ارث کے سلسلے ميں صرف اور صرف قرآن کي صريح آيت ہے اور ہميں سمجھنا چاہئے. ليکن دوسرے سب موارد ميں عين عدالت ہے. بيٹا کا ارث بيٹي کے مقابلے ميں دو برابر ہے اور يہ عين عدالت ہے. ايسے موارد ميں اگر يہ نہ کہا جائے کہ بيٹي کو بيٹے کي نسبت زيادہ ملتا ہے تو کم از کم يہ کہا جا سکتا ہے کہ بيٹے کے برابر مل رہا ہوتا ہے. ظاہراً بيٹا دو تومان لے رہا ہے اور بيٹي ايک تومان ليکن في الواقع دونوں ٥/١ ڈيڑھ تومان لے رہے ہوتے ہيں. اور اس کو علامہ طباطبائي نے اپني تفسير ميں بھي بيان فرمايا ہے.
براہ کرم! ارث کے بحث کے بارے ميں کچھ مزيد تفصيل بيان فرمائيے.
ہمارا عقيدہ ہے کہ قرآن کريم کي نص اور اسلامي فقہ کي ضرورت کي بنا پر، اور اس کے سوا کوئي چارہ بھي نہيں اور يہي عقيدہ رکھنا چاہيے، عقل اور عدالت کا بھي يہي تقاضا ہے، ہميں يہ عقيدہ رکھنا چاہئے کہ ارث کے باب ميں بيٹے کا حصہ بيٹي کي نسبت دوگنا ہے، اور مرد کا حصہ عورت سے زيادہ ہے اور يہ بالکل عدل اور عقل کے عين مطابق ہے اور اسلام کے بلندترين احکام ميں سے ہے.
کيوں؟
اس بات کي جڑھ تو علامہ طباطبائي کي تفسير الميزان ميں اس آيت «فللذکر مثل حظ الانثيين» (نساء/١٧٦) کے ذيل ميں آئي ہے، اس آيت کے مضمون سے جو کچھ ہم نے سمجھا ہے اسے ہم اپنے الفاظ ميں يوں بيان کريں گے کہ: فرض کيجئے پوري دنيا کي دولت تين ڈالر ہے، اور اس پوري دنيا ميں صرف ايک مرد اور ايک عورت رہتے ہيں، دو ڈالر مرد کو اور ايک ڈالر عورت کو دے ديتے ہيں، اب ظاہراً مرد کے پاس دو ڈالر ہيں اور عورت کے پاس ايک ڈالر.
اب مرد نے شادي کرني ہے اور حق مہر مقرر ہونا ہے. (يہ حق مہر واجب ہے) يعني اگر کسي شادي ميں مياں بيوي جذباتي ہو کر کہيں کہ مثلاً ہم اپني شادي ميں خوشيوں کي انتہاء تک پہنچنا چاہتے ہيں اس لئے کوئي حق مہر معين نہيں کرتے، تو اسلام اس قسم کي شادي کو نہيں مانتا، يعني جذبات کي انتہاء کو غلط سمجھتا ہے. حق مہر دينا ضروري ہے، ہاں البتہ يہ کہہ سکتے ہيں کہ بعد ميں اس کا تعين کريں گے، کيونکہ نکاح اور حق مہر کے باب ميں نقصان ہو سکتا ہے ليکن شيعہ مذہب کے مطابق اگر يہ شرط کي جائے کہ بالکل حق مہر نہ ہو گا تو ايسا نکاح باطل ہوگا.
لہذا اس وجہ سے مال کا کچھ حصہ عورت کو ديا جائے گا. اور ہمارے عقيدہ کے مطابق يہ صحيح نہيں ہے جو کہا جائے کہ سنت ميں جو حق مہر آيا ہے اس سے زيادہ مقرر نہيں کيا جا سکتا، اور حق مہر، روايات کے مطابق خود عورت اور مرد کے اختيار ميں ہے. اب اگر اچھي اور پاک عورت کي معاشرے ميں اہميت بڑھ جائے اور مرد کي ايسي عورت کي طرف احتياج ميں اضافہ ہو جائے اور بے راہ روي کي روک تھام ہو چکي ہو تو اس دو ڈالر ميں سے کچھ حصہ حق مہر کے عنوان سے اس عورت کو دينا ہوگا. اب تو الحمدللہ حق مہر کي رقم بہت بڑھ چکي ہے، کيونکہ حضرت امام خميني (سلام اللہ عليھا) کي کوششوں سے، يونيورسٹيوں ميں جا رہي ہيں اور ان کي اہميت بہت بڑھ چکي ہے. کبھي کبھي يہ کہا جاتا ہے کہ شادياں کامياب نہيں ہوتيں، ہرگز ايسا نہيں ہے، وہ چيزيں جو شاديوں کو ناکام کرتي ہيں، وہ دوسرے مسائل ہيں.
اب مرد نے اپنے والدين اور اس کے بعد آنے والي اولاد کا خرچہ بھي دينا ہوگا. اس پيسے کا کچھ حصہ يہاں پر خرچ کيا جائے گا. اب شادي ہو جاتي ہے، مرد کے پاس دو ڈالر تھے اور عورت کے پاس ايک ڈالر، عورت اس ايک ڈالر کو ڈپازت کروا ديتي ہے (کہيں ايسي جگہ جمع کرا ديتي ہے جيسا کہ بينک يا کسي دوسري کمپني ميں) جہاں سے اس کو منافع ملتا رہتا ہے. يہ سارا منافع اس کا اپنا ہوگا، اور مرد کو يہ حق نہيں ہے کہ وہ عورت سے اس کا پيسہ لے لے. يعني کہ عورت کے ايک ڈالر کا منافع عورت کا ہے اور مرد کے ايک ڈالر کا منافع اس کا اپنا ہے. مرد اس دوسرے ايک ڈالر کو کام ميں لگائے گا اور اس سے روزي کما کر گھر والوں کے لئے لائے گا. عورت کا نان نفقہ بھي مرد کو دينا ہے، اس کا مطلب يہ ہوا کہ عورت بھي مرد کي کمائي کو استعمال کرنے ميں شريک ہے، کم از کم اس کے آدھے حصے ميں شامل ہے.
آپ کي نظر کے مطابق جہاں پر عورت اور مرد دونوں گھر سے باہر کام کرتے ہيں اور پيسہ کماتے ہيں، کيا وہاں پر بھي مرد کو چاہئے کہ عورت کا نفقہ دے؟
جي ہاں، مرد کا شادي کے بعد، مشترکہ زندگي ميں عورت کو اس کا نفقہ دينا اس پر فرض بنتا ہے اور يہ اس کے ذمے ايک حق ہے جسے اس کو ادا کرنا ہے اور اس کا عورت کے کام نہ کرنے يا گھر سے باہر يا گھر کے اندر کام کرنے سے کوئي تعلق نہيں ہے. مالکيت ميں اصل چيز آمدني ہوتي ہے جس ميں عورت بھي شريک ہے. لہذا مالکيت کے لحاظ سے يا يہ دونوں برابر ہيں يا عورت کا پلڑا بھاري ہے اور يہ عين عدالت کے مطابق ہے، اور اس کي ايسے معاشرے ميں بات چلي ہے جو آج ہم حقوق کے برابري کي بات کر رہے ہيں ليکن کچھ لوگ اس کو ماننے کے لئے تيار نہيں ہيں. اسلام ايسے شرائط ميں برابري کا قائل ہے، اور کل رقم کا آدھا حصہ عورت کو ديا ہے بلکہ آدھے سے بھي زيادہ، کيونکہ مرد کو کام بھي کرنا ہوگا اور قرضہ بھي لينا ہوگا اور جيل بھي جانا پڑے گا.
لہذا جس طرح علامہ طباطبائي نے فرمايا ہے يہاں پر عدالت کا لحاظ کيا گيا ہے، في الواقع مردوں کو ارث کے قانون پر اعتراض کرنا چاہئے، اور انہيں کہنا چاہئے کہ ہمارا حصہ کيوں دوبرابر رکھا گيا ہے اور اس سے زيادہ کيوں نہيں ديا. ظاہري طور پر دوبرابر ہے ليکن في الواقع برابر ہيں.
لہذا ہماري نظر ميں اسلام ميں کوئي بھي ظالمانہ حکم نہيں ہے. معاشرتي حقوق ميں کسي قسم کي نسلي، علاقائي ديني اور قومي تبعيض کا وجود نہيں ہے. ہمارا عقيدہ ہے کہ اگر کوئي غير مسلم شخص کسي مسلمان کے ہاتھوں قتل کيا جائے، تو يہ غير مسلم فرد بھي محترم تھا اور اس کے قاتل کو بھي مار ديا جائے گا. مذہب سے ہٹ کر کہيں گے کہ ايک انساني جان، دوسري انساني جان کے مقابلے ميں ہے. البتہ اس بارے ميں روايت بھي موجود ہے. اور ديت کي بحث کي طرح نہيں ہے جہاں پر فتوا دينا تھوڑا سا مشکل تھا. ياد رہنا چاہئے کہ قصاص کا مطلب، اس طرح سے قاتل کا مقابلہ کرنا ہے اور يہ عين حقوق بشر ہے. ہم نہيں کہتے کہ اسے پھانسي چڑھاؤ، ہم يہ کہتے ہيں کہ اس کا مقابلہ کرو. گناہ کيا ہے تو اس کي سزا بھي چکھني چاہئے. البتہ اس کو معاف بھي کيا جا سکتا ہے. آپ کو معاشرے ميں اخلاق کي اقدار کو بلند کرنا چاہئے تا کہ معاشرے ميں بالکل قتل واقع نہ ہو يا اس کے لواحقين سے کہہ سکتے ہيں کہ ٹھيک ہے کہ اس نے قتل کيا ہے ليکن آپ اس کو معاف کر سکتے ہيں اور اس کے مقابلے ميں جتني رقم چاہو گے تمھيں ديں گے. اس ميں کہاں انساني حقوق کي خلاف ورزي ہے؟ اسلام ميں قصاص کا حکم بہترين حکم ہے. ميراث کے احکام بھي عالي ترين احکام ہيں اور ہماري نظر ميں فقہي طريقوں سے اور صاحب جواہر اور شيخ انصاري اور حضرت امام خميني کي فقہ کے مطابق کسي قسم کي تبعيض اور کوئي فرق نہيں پائيں گے.
جب حضرت امام خميني نے ايک علمي دانشور کے عنوان سے ہمارے بارے ميں يوں فرمايا کہ: «ميں ان کي معلومات سے بہت لطف اندوز ہوتا تھا»، امام خميني اور آپ کے بعد والے بيمہ کي عنايت سے اب يہ نہيں کہا جا سکتا کہ «صانعي کو کچھ آتا نہيں»، «صانعي ملا نہيں ہے». کچھ اور باتيں کہہ سکتے ہيں ليکن يہ کبھي نہيں کہہ سکتے، يہ اپنے منہ اپني تعريف کرنا نہيں ہے بلکہ يہ سب کچھ اسلام کي خدمت کے لئے کہہ رہا ہوں.
حضرت امام خميني نے فرمايا ہے: «ميں نے آقاي صانعي کي اپني اولاد کي طرح تربيت کي ہے. يہ آقاي صانعي جب ان سالوں ميں ہمارے درسوں ميں تشريف لاتے تھے، خاص طور پر آ کر ہم سے بات چيت کرتے اور ہم آپ کي معلومات کو ديکھ کر بہت لطف اندوز ہوتے تھے، اور يہ روحانيوں ميں ايک برجستہ شخصيت اور عالم ہيں». (صحيفہ امام، جلد ١٧، صفحہ ٢٣١)
آپ نے فرمايا ہے کہ اگر کوئي باپ اپنے فرزند کو مار دے تو اس کو قصاص نہيں کيا جائے گا، کيا يہ اسلام کے عالي احکام ميں سے ہے؟
آج آپ ملاحظہ فرماتے ہيں کہ دنيا قتل کي مخالف ہے. ميں بھي اسي منطق کے مطابق جواب ديتا ہوں. اب جب دنيا پھانسي دينے کي مخالف ہے، اسلام نے اعلان کيا ہے کہ اگر کوئي باپ اپني اولاد کو قتل کر دے تو اس کو قصاص نہ کيا جائے، اور اس حکم کے بارے ميں کچھ بھي نہيں کيا جا سکتا.
اب «و لکم في القصاص حياة» کو کيسے تخصيص لگ گئي؟
نہيں، يہ مسئلہ بالکل اس مورد کے تحت نہيں آتا ہے. وہ ايسے موارد ميں تھا جہاں پر لوگوں کے درميان ذاتي اغراض کي بنا پر لڑائي، جھگڑے پيش آتے ہوں، نہ کہ ايسے موارد ميں جہاں پر والد، قاتل ہو. قصاص کرنے سے، قتل کي روک تھام نہيں ہو سکتي، اس کا والد اور اولاد سے کوئي تعلق نہيں ہے. والد، اپني اولاد کي نسبت جذبات رکھتے ہوئے اسے قتل کر ديا ہے. اس قسم کے قتل بالکل بھي «و لکم في القصاص حياة» کے حکم ميں شامل نہيں ہوتے نہ يہ کہ اس حکم کو تخصيص لگي ہو، کيونکہ ماں باپ جذبات کے دريا ہوتے ہيں ليکن اس کے با وجود اب اپني اولاد کو قتل کر بيٹھے ہيں. پہلے تو اس کو سخت ترين تعزيرات کي جائيں گي (سخت سزا دي جائے گي). آپ اس کو جيل ميں رکھيں اور ہر روز اسے سو کوڑے ماريں، اسلام اس سے نہيں روکتا. اس حد تک سزا دي جائے تا کہ دوسروں کے لئے سبق بن جائے، تا کہ کل کوئي والد اپني اولاد کو قتل نہ کرے. اسلام يہاں پر مقابلہ کي بات نہيں لايا کيونکہ يہ جذبات کي دنيا ہے. ہمارے نزديک جو برابري کے قائل ہيں، اس مورد ميں ماں کو بھي قصاص نہيں کيا جائے گا، کيونکہ اس کے جذبات بھي اپني اولاد کے بارے ميں بہت زيادہ ہيں. ياد رہے کہ ہم باپ کي وفات کے بعد، صرف ماں کو ہي اولاد کا قيم (ولي) سمجھتے ہيں. باپ کي وفات کے بعد اولاد کي قيم ماں ہوتي ہے نہ کہ اولاد کا دادا، دادا کي باري ماں کے بعد آتي ہے.
بہر حال، اسلام نے کہا ہے کہ باپ کو تعزير کي جائے گي (سزا دي جائے گي، حکومت اور قانون بنانے والے آ کر اس کا طريقہ سيکھيں. اگر بعض باپ يہ ظلم کر رہے ہيں تو سزائوں کو بڑھايا جائے. اسلام کے اس قانون کي وجہ سے پھانسي کي تعداد ميں کمي واقع ہوئي ہے. اور دوسرا جواب يہ ہے کہ قصاص والي آيت ميں يہ مورد بالکل داخل ہي نہيں ہے. يہ صحيح بھي لگتا ہے. قصاص کي بحث کو مطالعہ کرنے کے لئے ہم نے شايد سو گھنٹے، لگائے ہوں اور دو مہينوں سے زيادہ اس پر وقت لگايا ہے.
تو آپ کي نظر ميں عورت اور مرد دونوں ارث کے علاوہ تمام حقوق ميں برابر ہيں، اور وہاں پر بھي برابري کي شکل ميں تھوڑا سا فرق ہے.
معاشرتي حقوق ميں اسي طرح ہے، مثلاً طلاق مرد کے اختيار ميں ہے جب چاہے حق مہر ادا کر کے طلاق دے سکتا ہے اور اسي طرح عورت بھي جب مرد کو پسند نہ کرتي ہو تو اپنا حق مہر مرد کو بخش کر اس سے طلاق خلع لے سکتي ہے، ہمارے فقہاء اور دوسروں جيسے شيخ الطائفہ نے فتوا ديا ہے کہ خلع کي طلاق دينا مرد پر واجب ہے. ہم نے بھي اسي فتوے کو قبول کيا ہے. اگر وہ مرد خود بھي طلاق نہ دينا چاہے، تو عدالت کا حکم، شوہر کے حکم پر برتري رکھتا ہے، عدالت عورت کو مرد سے طلاق دلوا دے گي اور يہ طلاق بائن ہو گي. اگر آپ کہيں کہ عورت جب چاہے طلاق بھي لے لے اور حق مہر بھي وصول کرے تو يہ ڈيموکريسي کے خلاف ہے اور مرد پر ظلم ہو گا. کيونکہ حق مہر بھي ادا کرے گا ليکن اس کي بيوي بھي نہيں ہے. مرد بھي جب عورت سے راضي نہ ہو تو اس کا حق مہر دے کر اسے طلاق دے سکتا ہے اور عورت آزاد ہو جائے گي. حق مہر ادا کرو اور طلاق دو. (خاص موارد کے علاوہ) طلاق اور شہادت ميں کہيں پر بھي تبعيض اور ظالمانہ فرق نہيں ہے، اور ارث ميں جو فرق ہے وہ عادلانہ ہے.
تو اسلامي فقہ ميں کہيں پر بھي فرق اور تبعيض نہيں ہے، ليکن ہمارے قانون آپ کي بتائي ہوئي صورت کي طرح نہيں ہيں.
ميرا قوانين سے کوئي تعلق نہيں ہے. ميرا فقہي طريقوں سے سرو کار ہے، جو امام خميني نے اپنے سياسي وصيتنامے ميں فرمايا کہ «تحقيقات پر تحقيق کا اضافہ ہو رہا ہے».
اگر قانون بنانے والوں نے مشہور فتووں کے مطابق قانون بنائے ہيں تو خود انھيں اس کا جواب دينا چاہئے. تبعيض اور دوسرے موارد کا بھي جواب دينا ہو گا. اور ضرور انہوں نے جواب دينے کے بارے ميں سوچ رکھا ہو گا.
اللہ تعالي ہم سب کو اسلام اور اسلامي فقہ کي خدمت کرنے کي توفيق عنايت فرمائے، اور ہم کو اہل بيت عصمت و طہارت عليھم السلام علي الخصوص حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليھا کے چاہنے والوں ميں سے قرار دے.
والسلام علي من اتبع الھدي.
تاريخ: 2002/12/03





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org