Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حقوق نسواں
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ہماری نظر میں اگر مرد دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی بیوی سے اجازت لےـ
جاپانی اخبار Asahi Shim bun کے ایڈیٹر جناب Masami Ono سے ملاقات ہماری نظر میں اگر مرد دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی بیوی سے اجازت لےـ
یہ بات مرجع تقلید حضرت آیة اللہ العظمی صانعی، نے جاپان میں نوے لاکھ کی تعداد میں چھپنے والا، جاپان میں دوسرے نمبر کا اخبار “Asahi Shim bun” کے کالم نویس جناب ماسامی اونو “Masami Ono” کے جواب میں اسلامی انقلاب، اسلام میں معاشرتی روابط اور انسانی حقوق کے بارے میں فرمایا:
ایران کا انقلاب عوام کی آگاھی کے لئے تھا، اور عوام نے بھی آگاہ ہونے کے بعد اپنے انقلاب کو کامیاب کیا. امام خمینی (س) کا ھدف یہ تھا کہ لوگ اپنے حقوق حاصل کرسکیں اور اجتماعی عقل کی حکومت ہو. لیکن اس راستے میں اسلامی اصول کی پابندی بھی ضروری ہے - جن کو عوام مانتے ہیں اور اس کی حمایت کی ہے – اور اسلامی اصول کا انسانی حقوق سے کوئی تضاد نہیں. ہماری نظر میں اسلام نے انسانی حقوق پر بہت زور دیا ہے اور خاص طور پر ہماری نظر یہ ہے کہ مرد اور عورت تمام حقوق میں برابر ہیں، صرف دو ایسے مورد ہیں جہاں پر کچھ اختلاف نظر آتا ہے لیکن ان میں بھی عدالت اور تساوی کا خیال رکھا گیا ہے.
ہماری نظر میں اگر مرد دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی بیوی سے اجازت لےـ اور اگر بغیر اجازت کے شادی کرے تو یہ جائز نہیں ہےـ اسی طرح اگر تیسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پہلی دو بیویوں سے اس کی اجازت حاصل کرےـ
آپ نے خواتین کے حقوق کی تشریح اور مرد اور عورت کے احکام میں عدالت کو ثابت کرتے ہوئے فرمایا:
ایک ارث کا مسئلہ ہے جو بیٹے کو بیٹی کے دوبرابر ملتا ہے. اور دوسرا طلاق کا مسئلہ ہے جس میں مرد کو اختیار دیا گیا ہے. اس کے علاوہ تمام موارد میں عورت اور مرد کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں. ہاں البتہ ان دو موارد میں بھی عدالت کا لحاظ کیا گیا ہے اور عورت پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوا ہے. اس بارے میں ہم پہلے بھی بہت تفصیل سے بات کرچکے ہیں.
خواتین معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی حقوق میں بالکل مردوں جیسے ہیں، اسی لیے اس کو حق ہے کہ وہ ملک کی صدر یا ولی فقیہ کے عھدے پر بھی فائز ہو، چہ جائیکہ دوسرے مناصب (جیسے وزارت، قضاوت، وکالت و غیرہ ... ) خلاصہ یہ کہ عورت بھی انسان ہے، تو دوسرے انسانوں جیسے تمام حقوق میں برابر ہے.
بعض عام مکان میں مثلا بسوں اور سٹیڈیم و غیرہ میں جو خواتین کے حقوق میں خلل پایا جاتا ہے اس بارے میں آپ نے فرمایا:
یہ مسائل مساوات اور عدالت کے خلاف نہیں ہیں ـ ہاں اگر خواتین کی جگہ نچلی جگہ ہوتی، ان کرسیاں خراب ہوتیں تو یہ عدالت کے منافی ہےـ لیکن (موجودہ وضعیت) مسؤلین کی تشخیص کی بنابر ہے اور یہ مقام اجرا اور مصلحت سے مربوط ہےـ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں سب طلبہ لڑکے اور لڑکیاں ایک کلاس میں بیٹھتے ہیں ـ سٹیڈیم میں بھی اسلام کے لحاظ کوئی منع نہیں ہے لیکن مصلحت کی بناپر یوں فیصلہ کیا گیا ہےـ کلی طور ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ جب تک عفت کے خلاف نہ ہو، مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہےـ لیکن مصلحت یہ ہے کہ اجرائی مقام میں اس طرح کیا جائےـ ہاں البتہ کیا ان کی مصلحت اندیشی صحیح ہے یا غلط ؟ یہ دوسری بحث ہےـ بہر حال یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور سماجی علوم کے ماہر لوگ اس کا جواب دے سکتے ہیں لیکن قانون کے لحاظ سے اس میں کوئی حرج نہیں ہےـ
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس سوال کے جواب میں کہ مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے لیکن عورت کو یہ اجازت کیوں نہیں ہے؟ یوں فرمایا:
ہماری نظر میں اگر مرد دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی بیوی سے اجازت لےـ اور اگر بغیر اجازت کے شادی کرے تو یہ جائز نہیں ہےـ اسی طرح اگر تیسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پہلی دو بیویوں سے اس کی اجازت حاصل کرےـ اور یہ عین عدالت ہے لیکن ان کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرسکتاـ کیونکہ بغیر اجازت کے ظلم ہوگاـ ضمناً یہ بھی مد نظر رہے کہ پہلے تو سب انسان اور سب اعتقادی مکاتب کا اعتقاد یہی ہے کہ عورت کو دوسرا شوہر اختیار کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ زندگی کرنا مشکل ہوجائے گاـ دوسرا یہ کہ عورت نے کیونکہ حق مھر اور زندگی کا تمام خرچہ لیا ہے اس لئے اگر چاہے کہ دوسرا شوھر اختیار کرے تو اس کو سب حق مھر واپس دینا ہوگا اور طلاق لے کر دوسری شادی کرےـ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ حق مھر بھی لے اور دوسرے مرد سے جا کر شادی بھی کر لےـ
آگے بڑھتے ہوئے حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا کہ :
جب پارلیمنٹ میں کوئی قانون پاس ہوتا ہے اگر اس کو شورائے نگھبان رد کر دے تو یہ عوام کو اپنے حقوق کے بارے میں فیصلہ کرنے میں دشواری ہوگی ـ
آپ نے عوام کی آزادی اور اس کے حصول کیلئے دیے گئے نذرانوں کے بارے میں فرمایا:
یہ جو آج اتنے قیدی جیلوں میں موجود ہیں یہ سب ان آزادیوں کا صلہ ہیں ـ آزادی کے حصول کے لئے عوام نے قربانی دی ہےـ ہم ابھی تک وہ سب کچھ جو عوام کا منظور نظر تھا اس کو مکمل حاصل نہیں کرسکےـ آزادی عوام کی مرہون منت ہے جنھوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور رائے دی اور اسی طرح دوسرے جنھوں نے زحمتیں برداشت کیں اور فی الواقع (آزادی) عوام کے انقلاب اور ان کے شھیدوں کی مرہوں منت ہےـ جہاں تک معاشرے میں موجود بے راہ روی کا تعلق ہے، یہ عوام کی تھذیب سے متعلق ہے اور آزادی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ـ پہلے کچھ عوام پر پریشر تھا جو بہت زیادہ حد تک ختم ہو چکا ہے ـ لیکن اس سلسلے میں بنیادی چیز تھذیبی اور کلچرل کام ہیں جو انجام دینے چاہیں ـ (عوام میں شعور پیدا کرنا ہوگا)ـ
آپ نے اپنے انٹرویو کے خاتمہ میں عراق میں امریکی اقدامات کی صحت یا غلطی کے بارے میں، عراق کی آئندہ حکومت اور اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں اسلام کی رائے کے بارے میں کچھ ارشادات فرمائے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو صدام سے رہائی دلانا بہت اچھا اقدام ہےـ لیکن یہ کہ امریکہ عراق میں باقی رہے اور عراق کے امور میں دخالت کرے، یہ سب عراقی عوام کی رائے پر منحصر ہےـ عراق کی آئندے حکومت کے بارے میں، عراق کے قانون اساسی کے بارے میں عوام سے نظرخواھی کریں اور اکثریت کی رائے کی اتباع کی جائے جو اکثر شیعہ ہیں ـ ضمناً اسلام کبھی بھی اجتماعی قتل کی اجازت نہیں دیتاـ ایسا اسلام جو جنگ میں درختوں کو اکھاڑنے کی اجازت نہیں دیتا وہ اس ہتھیار (ایٹمی ہتھیار) کو استعمال کرنے کی کیسے اجازت دے گاـ
تاريخ: 2003/12/02





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org