Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انعکاس
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی، کا سب سے حیرت انگیز فتوا خواتین کے بارے میں ہے، جس کے بارے میں بہت بحث ہوئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی اتوار 7/5/1380 کے ایڈیشن میں ایران کے بارے میں خاص رپورٹ حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی، کا سب سے حیرت انگیز فتوا خواتین کے بارے میں ہے، جس کے بارے میں بہت بحث ہوئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی اتوار 7/5/1380 کے ایڈیشن میں ایران کے بارے میں خاص رپورٹ شایع کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
آیہ اللہ العظمی صانعی، نے اپنے سادہ سے گھر سے ان آخری سالوں میں حیرت انگیز فتوے دیے ہیں جن میں سب سے زیادہ بحث کا موجب بننے والا فتوا، خواتین کے بارے میں ہے.
یہ تریسٹھ سالہ روحانی، ایک تہ کیے ہوئے کمبل پر بیٹھتے ہیں جس کے اوپر چھت سے آویزاں ایک پنکھا چل رہا ہے جو مشکل سے اس علاقے کی گرمی سے مقابلے میں کام آ سکتا ہے، آپ ہر قسم کی جنسیت، قومیت یا مذہب کی بنیاد پر تبعیض کو رد کرتے ہیں.
آپ کا عقیدہ ہے کہ یہ رقم ایک انسان کے خون کی قیمت ہوتی ہے جو اس کی زندگی کے چھن جانے پر اس کے لواحقین کو دی جاتی ہے. زندگی کا جوہر انسان کی روح ہوتی ہے اور وہ روح جو اللہ تعالی نے عورت کو عطا کی ہے وہ کسی طرح بھی مرد کی روح سے کمتر نہیں ہے.
وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت کو اجازت ہونی چاہیے کہ اپنی مرضی کے متابعب کرے. اور عورت کو صدر، ولی فقیہ اور حتی کہ قاضی بننے کا حق ہے. یہ ایسے کام ہیں جو 1979 سے (یعنی کہ جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا) ان پر عورتوں کے لیے پابندی لگی ہوئی ہے. آپ خاص شرائط میں جنس کو تبدیل کرنے کے لئے آپریشن کی اجازت دیتے ہیں اسی طرح اگر ماں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو یا خود بچے میں غیر معمولی اور مھلک نقص موجود ہوں تو حمل ٹھرنے کے بعد، پہلے تین مہینوں میں بچے کو ضایع کرنے کی اجازت دیتے ہیں.
لیکن ظاھراًً سب سے زیادہ بحث کا موجب بننے والا مسئلہ، دیت کے مسئلے میں آپ کی خاص نظر ہے جو عورت کی دیت کو مرد کی دیت کے برابر سمجھتے ہیں. دیت وہ رقم ہوتی ہے جو کسی کے مارے جانے پر وارثوں کو دی جاتی ہے (فارسی میں اسے خون بھاء کہا جاتا ہے). حالانکہ مذھبی قوانین کی رو سے جن پر ابھی عمل ہو رہا ہے، ان کے مطابق ایک عورت یا غیر مسلم فرد کی دیت ایک مسلمان مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے.
آپ کا عقیدہ ہے کہ یہ رقم ایک انسان کے خون کی قیمت ہوتی ہے جو اس کی زندگی کے چھن جانے پر اس کے لواحقین کو دی جاتی ہے. زندگی کا جوہر انسان کی روح ہوتی ہے اور وہ روح جو اللہ تعالی نے عورت کو عطا کی ہے وہ کسی طرح بھی مرد کی روح سے کمتر نہیں ہے. اور یہ مسئلہ ایسے گھمبیر مسئلوں میں سے ایک ہے جن سے آج ایران دچار ہے. سنہ ١٩٧٩ کا اسلامی انقلاب خواتین کے خاص طبقے کو آگے لانے میں کامیاب رہا ہے. ایسی خواتین جو پڑھی لکھی مستقل اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی ہیں. لیکن آج کی قدامت پسند حکومت ان خواتین کی امنگوں کو بر لانے میں مشکلات سے دچار ہے. حقیقت یہ ہے کہ خواتین دو گروہوں کے آپس میں اختلافات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں. ایک طرف سے اصلاح پسند گروپ اور دوسری طرف سے ایران کے قدامت پسند روحانیوں کا گروپ (جو ایران کی سیاست میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اسلامی قوانین کی سخت تفسیریں کر کے اپنی طاقت کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں).
سنہ ١٩٧٩ کے اسلامی انقلاب کے بعد، امنیت کا احساس بڑھنے کی وجہ سے، بہت سارے ایسے والدین جو روایتی سوچ کے حامل تھے، انھوں نے اپنی بیٹیوں کو سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کیا. اب یہ لڑکیاں بڑی ہو چکی ہیں. پچھلے سال کل یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس کا ٥٧ فیصد حصہ لڑکیوں سے تشکیل پاتا تھا اور لاکھوں خواتین گھر سے باہر کام کرنے میں مصروف ہیں.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا: خواتین جلد ہی سب سے اہم کام اور سب سے زیادہ حساس کاموں کے ادارت کریں گی. ہم اس پر اصرار نہیں کر سکتے کہ پرانے قوانین ابدی اور ہر زمانے کے لئے ہیں.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے اپنی دینی تعلیم نو سال کی عمر سے شروع کی تھی اور جید علماء اور اساتید کی کلاسوں میں شرکت کی ہے. آپ بچیس سال کی عمر میں آیة اللہ خمینی (اسلامی انقلاب کے رھبر اور مؤسس) کے معتمد اور با وثوق افراد میں شامل تھے، اور اسی زمانے سے شاہ کے خلاف مقابلے میں شامل تھے.
یہ دو عظیم ہستیاں اس طرح سے ایک دوسرے سے لگاؤ رکھتی تھیں کہ اب بھی حضرت آیة اللہ العظمی صانعی اس پر فخر کر کے اس کو یاد کرتے ہیں. اور آپ کے گھر کی دیوار پر ایک کتبہ پر لکھے ہوئے کچھ الفاظ آیة اللہ خمینی کی زبان سے یوں نقل کیے گئے ہیں: «میں نے آیة اللہ صانعی کی اپنے فرزند کی طرح تربیت کی ہے».
فی الواقع، آیة اللہ العظمی صانعی، انقلاب کے اوائل میں ایران کی مذھبی تشکیلات کے بہت قریب مانے جاتے تھے. وہ شورای نگھبان کے ان بارہ افراد میں شامل تھے جنھوں نے ایران کے آئین کا ابتدائی مسودہ تیار کیا تھا. ((توجہ: ایران کے آئین کا مسودہ تیار کرنا، شورای نگھبان کے فرائض میں شامل نہیں ہے. یہ صرف نیویارک ٹائمز کے صحافی کی غلطی ہے. دفتر آیة اللہ العظمی صانعی)). بعد میں آپ چیف جسٹس کے عہدے پر فائض رہے اور ایسے افراد میں شامل تھے جنھوں نے اسلامی قوانین کو سابقہ غیر مذھبی قوانین کی جگہ لاگو کرنے میں کردار ادا کیا.
یہ قوانین جو اب بھی ایران میں لاگو ہیں، مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور یہ مرد جب چاہیں اپنی بیویوں کو طلاق دے سکتے ہیں. اس کے علاوہ، خواتین کی گواہی کو مردوں کی گواہی کے آدھے حصے کے برابر سمجھا گیا ہے اور ان کا ارث سے بھی مردوں کے حصے کا آدھا حصہ دیا جائے گا. انقلاب کے بعد، حکومت نے خواتین کے لئے جبری حجاب کا قانون بھی نافذ کیا ہے اور اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کے لئے ٧٤ کوڑے کی سزا مقرر فرمائی ہے. ابتدائی سالوں میں خواتین کے لئے کپڑے پہننے میں لائٹ اور روشن رنگوں کا استعمال برا مانا جاتا تھا اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے لئے ایک خاص قسم کی اوڑھنی جو پاؤں سے لے کر سر تک کو ڈھانپ لیتی ہے جسے «چادر یا برقعہ» کہا جاتا ہے اس کا استعمال ضروری تھا.
آية اللہ العظمی صانعی سرکاری عہدوں سے سبکدوش ہونے کے بعد، اپنے ان نظریات کی تشریح کو اصلی ھدف بنا لیا ہے جن میں آپ کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورت اور مرد، دونوں کو ایک طرح کا رتبہ اور ایک طرح کے حقوق دئے گئے ہیں.
اسی طرح اصلاح طلب صدر یعنی جناب آقای خاتمی کے آنے کے بعد، آپ نے اپنے میانہ روی پر مبنی احکام صادر کرتے ہوئے اپنے بعض نظریات میں تعدیل کی ہے.
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے فرمایا ہے: ان دنوں میں (سرکاری مناصب پر رہتے ہوئے) عوام کے درد کو اس قدر قریب سے نہیں جان سکتا تھا، لیکن اب میں عوام کے درمیان رہتا ہوں، اور زندگی کی صعوبتوں کو بہت قریب سے محسوس کر رہا ہوں.
آج کل آپ کے نظریات کو اصلاح طلب مومنٹس میں بہت پذیرائی مل رہی ہے.
ایک غیر مذھبی فمینیسٹ نے کہا ہے کہ، آیة اللہ العظمی صانعی کا اس چیز کی طرف مائل ہونا اور آپ کا یہ جرأتمندانہ عمل جو غیر روائتی نظریوں کو ظاہر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے، آپ کو دوسرے روحانیوں سے ممتاز کر دیتا ہے.
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں خواتین کمیشن کی صدر، مسز فاطمہ راکعی، نے حضرت آیة اللہ العظمی صانعی اور اسی طرح بعض دیگر روحانیوں سے ملاقات کی ہے تا کہ ایران کے موجودہ قوانین جن میں مرد اور خواتین کے درمیان فرق رکھا گیا ہے ان کو اصلاح کرنے میں ان روحانیوں کی حمایت حاصل کر سکے.
مسز فاطمہ راکعی کا کہنا ہے کہ: ان قوانین کا اکثریتی حصہ اسلامی فقہ سے مرتبط ہے اور مذھبی رجحانات کو مد نظر رکھے بغیر ان قوانین کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا. بعض ایسے مفاھیم موجود ہیں جو خواتین میں عدم اعتمادی کی فضا پھیلاتے ہیں. اور زمانے کے حساب سے ان میں تبدیلی ضروری ہے. بہت سے قوانین آج کل نہیں چلائے جا سکتے کیونکہ وہ آج کے زمانے کے لئے مناسب نہیں ہیں.
لیکن دوسری طرف سے محافظہ کار (قدامت پسند) روحانیوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ خواتین کے معاملے میں بہت سخت قوانین کے حامی ہیں. گذشتہ تین سالوں میں، ایران کی اصلاح پسند پارلیمنٹ نے خواتین کے بارے میں تین ترمیمات پاس کی ہیں. ان میں سے صرف ایک ترمیم جو غیرشادی شدہ لڑکیوں کو، سرکاری سکالرشپ لے کر اکیلی ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے سے متعلق تھی، شورای نگھبان کی طرف سے پاس ہو سکی ہے لیکن دوسری دو ترمیمات جن میں ایک شادی کی عمر کو نو سال سے بڑھا کر پندرہ سال کرنے سے متعلق تھی اور دوسری طلاق دینے کے لئے خواتین کو زیادہ اختیارات دینے کے بارے میں تھی، ان دو ترمیمات کو شورای نگھبان نے رد کر دیا ہے. شوارای نگھبان قدامت پسند افراد سے تشکیل پانے والی بارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی جو پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے لوائح اور ترمیمات کو اسلامی قوانین سے مطابقت رکھنے کے بارے میں تحقیق کرتی ہے اور ان کی تأیید کرتی ہے.
مسز راکعی نے بتایا کہ: انھوں نے (یعنی پارلیمنٹ کے ارکان نے) دینی فتووں اور حقوقی استدلالات، جیسا کہ آیة اللہ العظمی صانعی کے فتاوا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، خواتین کی ملک سے باہر پڑھائی کو جاری رکھنے کے بارے میں قانون کو پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ابھی دوسرے دو قوانین پر بحث جاری ہے.
عام طور پر خواتین کے بارے میں قوانین میں تبدیلیاں بہت دیر سے انجام پاتی ہیں اور وہ بھی ایک خاص اور معین حد تک ان میں تبدیلی کی اجازت ہے. اس سلسلے میں ایک بہت واضح نمونہ حجاب کا قانون ہے جو اب بھی ایران میں لازمی ہے. گذشتہ سال پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے منتخب ہونے والی تین خواتین نے موجودہ وضعیت میں تبدیلی لائی ہے. وہ چادر (جو سر سے پاؤں تک کو ڈھانپتی ہے) کی بجائے صرف مقنعہ پہن کر پارلیمنٹ میں آئی ہیں. بعض ارکان نے اعتراض کیا اور ان خواتین کی رکنیت کو ختم کرنے کی دھمکی بھی دی، لیکن یہ خواتین جیت گئیں. اس کے کچھ مہینے بعد انہی خواتین کی وجہ سے ایران کی وزارت تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ پرائمری سکول کی لڑکیاں اپنے یونیفارم کے لئے لائٹ اور روشن کلرز جیسا کہ پیلا یا پنک کلر بھی استعمال کر سکتی ہیں.
اس کے با وجود خواتین کے لئے محدویتیں ابھی تک اپنی قوت سے باقی ہیں. اور حتی کہ آیة اللہ العظمی صانعی بھی حجاب کے بارے میں کسی قسم کے مصالحہ پر رضامند نہیں ہیں. اور جب آپ سے بہت اصرار کر کے یہ پوچھا گیا کہ بتائیں قرآن کریم کی کون سی آیت میں اس قسم کے حجاب کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے جس طرح کا حجاب ایرانی خواتین پہنتی ہیں؟ آپ نے قاطعانہ طور پر فرمایا کہ: حجاب ایک شرعی فریضہ ہے.
آپ (عمومی جگھوں پر) مردوں کی خواتین سے علیحدگی کے حامی ہیں. اور اسی طرح آپ کا عقیدہ ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق عورت کو اپنے خاوند کی تابعدار ہونا چاہیے. آپ نے اپنی ایک کتاب میں جو خواتین کے بارے میں ہے، لکھا ہے کہ ایسی خواتین جو گھر سے باہر کام کرنا چاہتی ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے کام کرنے کے بارے میں خاوند کی رضایت حاصل کریں.
حالآنکہ غیر مذھبی فمینسٹوں کے مقابلے میں آیة اللہ العظمی صانعی نے خواتین کے حق میں کچھ زیادہ نہیں کہا ہے، لیکن آپ کے اور آپ جیسے دوسرے لوگوں کے نظریات ہی ہیں جو اصلاحات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں.
آپ نے فرمایا ہے: ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام عدالت اور انصاف کا دین ہے جبکہ اسلامی قوانین میں خواتین اور غیر مسلم افراد کو برابر کے حقوق نہ دیے گئے ہوں.
حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت، دونوں انسان ہیں اور اسلام سب انسانوں کو برابر سمجھتا ہے.
تاريخ: 2001/07/29
ويزيٹس: 8162





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org