Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ملاقاتيں
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ہم ولایت فقیہ کے نظریہ کو ساتھ رکھتے ہوئے، اسلام میں عالی ترین جمہوریت کے معتقد ہیں.
سوئیزرلینڈ کے سفیر کی آپ سے ملاقات ہم ولایت فقیہ کے نظریہ کو ساتھ رکھتے ہوئے، اسلام میں عالی ترین جمہوریت کے معتقد ہیں.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق کے بارے میں عدالت کا خیال رکھا ہے، اور مرد کے لئے کوئی خاص امتیازات قائل نہیں ہوا ہے.
شیعوں کے جدید طرز فکر کے حامل مرجع، حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے سوئیزرلینڈ کے سفیر سے ملاقات کے دوران، سفیر صاحب کے اس سوال کے جواب میں کہ اسلام میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو کیوں دیا گیا ہے، یوں فرمایا: طلاق کا مسئلہ ابتدائی طور پر مرد کے اختیار میں ہے اور یہ مرد کے لئے کوئی امتیاز نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خاندان کو چلانے کے لئے ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے، اسلام نے مرد کو گھر کا سربراہ مقرر فرمایا ہے جو عورت اور گھر سے متعلقہ افراد کی رضایت سے گھر کو چلاتا ہے. البتہ کچھ ایسے طریقے بھی موجود ہیں کہ ان کے ذریعے عورت اپنے آپ کو طلاق دلوا سکتی ہے.
ماری نظر میں دونوں بیٹا اور ہیٹی کے لئے معیار وہی سات سال ہیں، یعنی کہ سات سال کے پورے ہونے کے بعد بیٹی ہو یا بیٹا، باپ کے حوالے کیے جائیں گے، لیکن اگر اس حق کی وجہ سے ماں کے لئے مشکل بن رہی ہو تو عدالت کو چاہئے کہ ان کو ماں کے حوالے کرے
مثال کے طور پر:
١. «شرط ضمن عقد» کے طور پر، یعنی نکاح کرتے وقت عورت یہ شرط کر سکتی ہے کہ وہ مرد کی طرف سے وکالت رکھتی ہو کہ خاص مواقع میں جو بیان ہونگے، ایسے مواقع میں مرد کی طرف سے اپنے آپ کو طلاق دے سکے. اور «وکالت بھی ختم ہونے کے قابل نہ ہو یعنی دائمی ہو»، یعنی نکاح کے وقت، اس نکاح کو وکالت دینے پر مشروط کر سکتی ہے. چنانچہ یہ شرط اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام شادیوں میں رکھی جاتی ہے. لیکن اس میں خاص شرائط کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے جن پر طرفین رضامندی کا اظہار کریں.
٢. ایسی صورت میں جہاں عورت کے لئے کسی مرد کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہو جائے، وہاں وہ عدالت میں جا کر طلاق کی درخواست دے سکتی ہے. عدالت، ابتدائی مرحلے میں مرد کو بلا کر اس کو نصیحت کرے گی، اگر نصیحت مؤثر نہ رہی تو مرد کو مجبور کیا جائے گا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اور مرد نے انکار کیا اور طلاق دینے پر راضی نہ ہوا تو عدالت کو حق ہے کہ وہ اس عورت کو طلاق دیدے. اور یہ بہت مفصل باب ہے. اور ایسے بہت سے موارد ہیں جہاں جب بھی عورت کے لئے کوئی مشکل بن رہی ہو تو وہ طلاق لے کر ان سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے.
٣. دوبارہ ایک ایسا مورد جہاں پر عورت کی بہتری کا خیال رکھا گیا ہے، وہاں ہے جہاں مرد اپنی بیوی کو اذیت دینے اور اسے صدمہ پہنچانے کے لئے اسے طلاق دینا چاہتا ہو، تو وہاں ہماری نظر یہ ہے کہ اسلامی قانون کے مطابق، مرد کو اس کا حق نہیں پہنچتا، یعنی قانونی نقطہ نگاہ سے، طلاق کوئی دوسروں کو مجبور کرنے یا دوسروں کی ایذا رسانی کے لئے نہیں ہے جو جب بھی مرد کا جی چاہے اسے استعمال کر سکے.
عورتوں کو طلاق کے بعد، اپنی اولاد اپنے پاس رکھنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ آپ نے سفیر صاحب کے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ اولاد کی سرپرستی کے مسئلہ کے بارے میں موجودہ سول قانون اور بہت سے فقہاء کے فتوے یہ ہیں کہ بیٹی کی سات سال تک اور بیٹے کی صرف دو سال تک سرپرستی ماں کے پاس ہونی چاہئے، یعنی کہ اگر بیٹی کی عمر سات سال سے اوپر ہو یا بیٹے کی عمر دو سال سے زیادہ ہوگی تو ان کو باپ کے حوالے کیا جائے گا. لیکن ہماری نظر میں دونوں بیٹا اور ہیٹی کے لئے معیار وہی سات سال ہیں، یعنی کہ سات سال کے پورے ہونے کے بعد بیٹی ہو یا بیٹا، باپ کے حوالے کیے جائیں گے، لیکن اگر اس حق کی وجہ سے یعنی کہ بیٹے اور بیٹی کو باپ کے حوالے کرنے کی وجہ سے اگر ماں کے لئے مشکل بن رہی ہو تو عدالت کو چاہئے کہ ان کو ماں کے حوالے کرے تا کہ ماں اس مشکل میں نہ پڑے، اسی طرح اگر باپ میں اولاد کی سرپرستی کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس صورت میں بھی اولاد ماں کو دی جائے گی. فی الواقع یہ سرپرستی کا حق جو باپ کو دیا گیا ہے اس لئے ہے کہ ماں اور کلی طور پر عورت کے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ اٹھایا جا سکے کیونکہ اولاد کی سرپرستی کرنا بہت مشکل کام ہے.
آپ نے اس سوال کے جواب میں کہ «جمہوریت اور ولایت فقیہ کیسے ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں؟» یوں فرمایا: جو آج کل ہو رہا ہے یا جو کچھ اب حال حاضر میں موجود ہے، اس سے قطع نظر، ایک صاحب نظر کے عنوان سے جواب دینا چاہتے ہیں: ہم ولایت فقیہ کے نظریہ کو ساتھ رکھتے ہوئے، اسلام میں عالی ترین جمہوریت کے معتقد ہیں، یعنی جمہوریت بھی اور ولایت فقیہ بھی. ہماری نظر میں اسلام میں وہ قانون جو سول یا جزئی یا حقوقی ہوں، ان کو وحی اور قرآن اور حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت سے لینا چاہئے، اور عوام کی طرف سے منتخب کئے گئے نمایندے، (پارلیمنٹ کے اراکین)، ان قوانين کو صحیح شکل و صورت میں پیش کریں. ہاں البتہ کبھی کبھی ان قوانین کے بارے میں مراجع اور صاحب نظر افراد کے نظریہ مختلف ہو جاتے ہیں جو انہیں مکمل کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں.
اس ملاقات کے آخر میں حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے، سوئیزرلینڈ کے سفیر کی درخواست پر، اپنی زندگی اور اپنے روزانے کی مصروفیات کے بارے میں کچھ توضیحات بتائیں، سوئیزرلینڈ کے سفیر نے بھی ملاقات کے آخر میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا.
تاريخ: 2005/11/19
ويزيٹس: 5615





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org