Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ملاقاتيں
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: جنت، صرف انسان کے اعمال پر منحصر ہے، نہ کہ انسان کے شناختی کارڈ اور عمل پر.
جناب ڈاکٹر لیاقت علی کی آپ سے ملاقات جنت، صرف انسان کے اعمال پر منحصر ہے، نہ کہ انسان کے شناختی کارڈ اور عمل پر.
باسمہ تعالی
امریکہ سے آئے ہوئے، فلسفے کے پروفیسر جناب ڈاکٹر لیاقت علی کا حضرت آیة اللہ العظمی صانعی سے انٹرویو

سوال. کیا غیر مسلم پاک ہیں؟ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب. تمام انسان پاک ہیں اور کوئی بھی نجس نہیں ہے. صرف وہ لوگ جو یہ جانتے ہوئے کہ اسلام دین حق ہے اور اس کے با وجود اس سے دشمنی رکھتے ہیں، ان کے بارے نہیں کہا جا سکتا ہے وہ پاک ہیں بلکہ وہ لوگ نجس ہیں. لیکن ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہے. اور اگر کسی کے بارے میں شک ہو کہ یہ شخص اسلام کے دشمنوں میں سے ہے یا عام دوسرے لوگوں کی طرح ہے تو وہ شخص بھی پاک ہے. اس بناپر تمام غیر مسلم، ھندو ہو یا آگ یا یزدان یا گائے کی پوچا کرنے والے سب کے سب پاک ہیں. قرآن میں لفظ «نجس» صرف مشرکوں کے لئے استعمال کیا گیا ہےُ.
«انما المشرکون نَجَس، فلا یقربوا المسجد الحرام». یعنی وہ مشرک شخص جس کی روح ناپاک ہو چکی ہے. اور اس ناپاکی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کا علم رکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ خدا ایک ہے. لیکن اس کے باوجود شرک اختیار کیا ہوا ہے. «انما المشرکون نَجَس» (نَجَس کی ج پر زبر ہے). نَجَس کا مطلب یعنی جس کا روح ناپاک ہو. اور کب مشرک کا روح ناپاک ہوتا ہے؟ جب وہ توحید کی حقانیت کا یقین رکھتے ہوئے، شرک کو ترجیح دیتا ہے. لیکن اگر ایسا فرد جس کو توحید کی حقانیت کا علم نہ ہو، کیا وہ شخص بھی نجس ہے؟ نہیں. یہ نہیں کہا جا سکتا. کیونکہ وہ قاصر ہے.
رہی بات ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی تو کھانا کھانے کے بارے میں بھی واضح ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا، بالکل دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی طرح ہے. ان کے ہاتھ پاک ہیں. ان کے کھانے بھی پاک ہیں. صرف ان کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا حیوان (بھیڑ، گائے، مرغی و غیرہ ...) اگر ذبح کرتے وقت خدا کا نام نہ لیا جائے (بسم اللہ نہ پڑھی جائے) تو اس کو کھانا حرام ہے.

سوال. اگر غیر مسلمان شخص، حیوان کو ذبح کرے تو کیا یہ حلال ہوگا؟
جواب. تمام انسان اگر ذبح کرتے وقت خدا کا نام زبان پر لائیں تو اس کا کھانا حلال ہو جائے گا. اور اگر میں اس کا گاھک ہوتا تو اس کو خرید لیتا. لیکن ذبح کرتے وقت اگر خدا کا نام نہ لیا جائے تو یہ حلال نہ ہوگا. خدا کا نام ان کی اپنی زبان میں یا عربی یا فارسی و غیرہ ... کوئی فرق نہیں ہے. صرف ذبح کرنے کے وقت، ابتدا میں خدا کا نام لیا جائے اور خدا کے پر ذبح کیا جائے تو حلال ہوگا ورنہ حرام ہوجائے گا. اگر شک کیا جائے کہ اس نے ذبح کرتے وقت خدا کا نام لیا تھا یا نہیں تو وہ حرام ہوگا. ہاں البتہ اگر مسلمانوں کے بازار میں گوشت بیچا جا رہا ہے اور وہاں پر شک ہو جائے کہ ذبح کرتے وقت خدا کا نام لیا گیا ہے یا نہیں، تو وہاں پر حلال ہوگا.

سوال. تو اگر یہودی بھی ذبح کرے تو حلال ہے؟
جواب. جی ہاں، لیکن خدا کا نام لے کر. مثلاً اگر کسی یہودی سے کہا جائے کہ ہمارے لئے اس بھیڑ کو ذبح کرو لیکن اللہ کا نام لے کر. وہ عقیدہ نہیں رکھتا لیکن اگر اللہ کا نام لے کر ذبح کریگا تو وہ حیوان حلال ہوگا.

سوال. کلی طور پر آپ غیر مسلم لوگوں کے بارے میں کیا نظر رکھتے ہیں؟ کیا ان کے نیک کام خدا کی بارگاہ میں قبول ہوں گے؟
جواب. ہمارا عقیدہ یہی ہے. اس کے بارے میں ہم نے (اپنے دروس میں) کافی بحث بھی کی ہے. وہ لوگ جو قاصر ہیں جیسے غیر مسلم لوگوں کا اکثریتی حصے جن کا عقیدہ یہی ہے کہ ان کا اپنا دین حق ہے، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا احتمال بھی نہیں دیتے، مثال کے طور پر جو شخص گائے کی یا آگ کی پوچا کرتا ہے، اور اس کا یہی عقیدہ ہے کہ گائے یا آگ کی پوجا کرنا ہی سچا عقیدہ ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی احتمال نہیں دیتا. اس کا ذھن اس کو مان چکا ہے، اگر یہ شخص ایسی چیزوں کی جو اس کے ذھن کے مطابق حقیقت نہیں ہیں، مخالفت نہ کرے (یعنی کے دوسروں کے عقائد سے دشمنی نہ کرے) اور نیک کام کرتا رہے تو اس کے نیک کاموں کا اس کو صلہ ملا گا. اور اس کے نیک کاموں کا نتیجہ جنت ہوگی.

سوال. چاہے وہ عیسائی ہو؟
جواب. جی ہاں. عیسائی ہو لیکن نیک کام کرے. دوسرے لوگوں پر ظلم نہ کرے اور ایسے کاموں سے جو دوسروں کی اذیت کا موجب بنتے ہوں، ان سے پرھیز کرے. دوسرے لوگوں کے حقوق کو ضایع نہ کرے جو عقل بھی اسے غلط سمجھتا ہے. عیسائی ہو لیکن عوام کی خدمت کرتا ہے، ملحد ہے لیکن لوگوں کی خدمت کرتا ہے، ھندو ہے لیکن لوگوں سے اچھا سلوک کرتا ہے، اس کا یہ نیک عمل ضایع نہیں ہوگا. «من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا و من جاء بالسیئہ فلا یجزی ...» کہا گیا ہے کہ «من جاء» یعنی جو شخص بھی نیک کام کریگا، اس کو اس کے نیک کام کا دس گنا صلہ اور اجر دیا جائے گا.

سوال. جو شخص بھی، چاہے غیر مسلم ہو؟
جواب. جی ہاں، ملاصدرا کی نظر میں تو اصلاً جنت ہے ہی یہی، یعنی کہ جو روح کو تکامل ملتا ہے. (یعنی کہ اس کے نیک اور اچھے اعمال سے اس کی روح کامل ہوتی جا رہی ہے اور یہی اس کی جنت ہے) اور دوسرے حضرات کی نظریات کی بنا پر قرآن کی یہ آیت موجود ہےکہ «من جاء بالحسنة فلہ عشر امثلھا».

سوال. چاہے وہ بت پرست یا یہودی ہو؟
جواب. جی ہاں، جو بھی ہو. لیکن جو چیزیں اس کے عقل کے مطابق بری ہوں، ان سے پرہیز کرے اور جو اس کے عقل کی نظر میں اچھا ہو اسے بجا لائے.

سوال. یہ چیز میرے لیے نئی ہے، میں ابھی تک یہ سوچتا تھا کہ صرف مسلمانوں کے اعمال قبول ہوں گے.
جواب. اس طرح نہیں ہے. اس بارے میں قرآن میں متعدد آیات موجود ہیں. ان میں سے ایک یہی ہے «من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا». قرآن میں اگر بعض جگہوں پر ایمان کا لفظ آیا ہے تو ایمان کا مطلب یقین ہے. خدا پر یقین نہیں، بلکہ اسکا یقین کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے وہ اچھا اور نیک عمل ہے اور بجا بھی لائے. کیونکہ جب اسے یہ یقین حاصل ہوجائیگا تو وہ اس آرام اور سکون سے بجا لائے گا. اور اس کو دھراتا رہے گا. لیکن اگر اس کو اس کام کی اچھائی اور اس کے نیک ہونے کا یقین نہ ہوگا تو اس کام کو مجبور سمجھ کر کرے گا. جس کا کوئی فایدہ نہ ہوگا. اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو روحی کمال حاصل نہیں ہوگا. اس کی روح اچھائی اور نیکی کی طرف آگے نہیں بڑھے گی. اس کا ذھن اس عمل کے ساتھ مأنوس نہیں ہوگا. قرآن میں آیا ہے کہ «والعصر، ان الانسان لفی خسر، الا الذین آمنوا ...» یہاں پر ایمان کا مطلب صرف خدا اور رسول پر ایمان لانا مقصد نہیں ہے، «آَمنوا» یعنی وہ اعمال جو بجا لاتے ہیں ان پر یقین رکھتے ہیں اور حق کی طرف دعوت دینے کی اچھائی کو مانتے ہیں. اس کا راز یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی عمل کی اچھائی پر یقین نہ رکھتا ہو اس میں دوام نہیں ہوتا، ایک بار وہ کام کرنے کے بعد معلوم نہیں کہ دوبارہ اس کو بجا لائے گا یا نہیں. دوسری بات یہ ہے کہ اس میں روحی تکامل نہیں آئے گا، کیونکہ مجبور ہو کر خاص شرائط میں وہ بجا لا رہا ہے. اسی لئے اس شخص کی روح میں اس کی تأثیر نہ ہوگی. اور ذھنی نشو و نما نہیں پائے گا، اس کام میں لذت محسوس نہیں کرے گا.

سوال. بہت خوب. ابھی تک میں «من جاء بالحسنة» کو صرف مسلمانون کے لئے مختص سمجھتا تھا. اس کی مزید وضاحت فرمائیے؟
جواب. ہم نے عرض کی کہ «من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالھا» سب انسانوں کے لئے ہے. معاد کے بارے میں جناب ملاصدرا کی نظر سب سے بھتر ہے. وہ فرماتے ہیں «انسان یہیں پر اپنی جنت بنا رہا ہے» وہ فرماتے ہیں «روح علم ہے، خدمت ہے، تقوی ہے، اور کبھی روح بھیڑیا پن ہے، روح آگ ہے، روح زوال ہے، یہ سب میں خود بنا رہا ہوں {امام خمینی رحمة اللہ علیہ بھی اس نظریہ کو مانتے تھے}. فی الواقع حرکت جوھری بھی سب یہی ہے، یا کمال کی طرف جا رہا ہوں یا پستی اور زوال کی طرف. لھذا جو شخص کوئی عمل بجا لاتا ہے تو اس کو اس کی اچھائی کا یقین بھی ہوتا ہے، اور یہ کہ یہ کام خدمت خلق ہے. اس کی روح میں اس کام کی تأثیر ہوتی ہے. نتیجتاً اسے جنت میں جانا چاہئے.
جنت، صرف انسان کے اعمال پر منحصر ہے، نہ کہ انسان کے شناختی کارڈ اور عمل پر. فی الواقع یہ بات بالکل معقول بھی نہیں کہ اللہ تعالی، انسانوں کو ان کے شناختی کارڈ کی بنا پر جنت میں لے جائے بلکہ جنت انسان کے نیک اعمال کا نتیجہ ہے. میں نے اگر نیک کام کئے ہوں تو جنت میں کیوں نہ لے جائے. {قیامت کے دن وہ شخص کہے گا} میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لا سکتا تھا. جس طرح کوئی مسلمان، عیسائیت پر ایمان نہیں لا سکتا، اسی طرح ایک عیسائی شخص بھی ہمارے پیغمبر کو قبول نہیں کر سکتا. اب اگر یہ شخص عمل صالح (نیک کام) بجا لاتا ہے، تو کیا اللہ تعالی اس سے کہے گا کہ : تم نے یہ جو نیک کام کیا ہے اس کا اجر نہیں دوں گا. کیونکہ توں نے میرے بھیجے ہوئے رسول کو نہیں مانا تھا. وہ کہے گا : میں نہیں مان سکتا تھا، میں مسلمانوں والا شناختی کارڈ نہیں حاصل کر سکتا. کیا اللہ تعالی اس سے کہے گا کہ کیونکہ مسلمانوں والا شناختی کارڈ نہیں لے سکا اس لئے تمھارے کیے ہوئے نیک اعمال کا تجھے صلہ نہیں ملے گا؟ وہ کہے گا : میں ایک مسلمان کے طور پر شناختی کارڈ نہیں لے سکا اور اب نیک عمل بھی بجا لایا ہوں اور مجھے اس کا اجر بھی نہیں مل رہا. کیا یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس پر ظلم نہیں ہوگا؟ لذا اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے «ان اللہ لیس بظلام للعبید» اللہ تعالی کبھی بھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا.
بہت سے فقہاء نے ايسے امور کى نسبت جو صرف خواتين سے مختص ہيں، ان کے بارے ميں دو عورتوں کى گواہى کو دو مردوں کے برابر قرار ديا ہے. کيونکہ وہ ايسے موارد ميں زيادہ معلومات رکھتى ہيں.

اس طرح اگر برا کام بھی انجام دے تو، برا کام کسی سے بھی سرزد ہو، وہ برا ہی ہوتا ہے. اس کے اچھے اعمال بھی ضایع ہوجائیں گے. اس میں مسلمان یا غیر مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے. خلاصہ یہ کہ اگر کوئی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یقین نہ لایا ہو، بالکل اس کی سوچ میں بھی نہ آیا ہو، اس کے ذہن میں یہ بات نہ بیٹھتی ہو، لیکن نیک عمل بجا لائے البتہ اس کے نیک ہونے کا یقین رکھتا ہو تو، پہلی بات تو یہ ہے کہ ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق، اس کا یہ نیک عمل، اس کی روح کو کمال بخشے گا جس کا نتیجہ جنت ہے. کیونکہ کمال کا لازمہ جنت ہے. دوسرا یہ کہ اگر یہ فرض بھی کیا جائے کہ اللہ تعالی میرے اس عمل کو قبول بھی نہیں کرے گا اور دوسرے مسلمان شخص کا یہی عمل قبول کر لے گا تو یہ تبعیض ہو گی. یہ ظلم ہوگا. میں اللہ تعالی کی خدمت میں عرض کروں گا : اے میرے اللہ! میں وہ اسلامی شناخت حاصل نہ کر سکا تو کیا میرے نیک اور صالح عمل کا اجر ضایع ہو جائے گا لیکن دوسرے شخص کا نیک عمل جو مسلمان ہے، اس کو اس کے عمل کا صلہ ملے گا؟ یہ تبعیض ہے. ایسے امر میں تبیض ہے جس پر اختیار بھی نہیں ہے. کیا ایک شیعہ شخص عیسائیت کو مان سکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان شخص، ہندو مذہب کو قبول کر سکتا ہے؟ {ہرگز نہیں} اس کے اعتقادی اصول اس کو اس کام کی اجازت ہی نہیں دیتے. اسی طرح وہ ہندو بھی اسلام کو قبول نہیں کر سکتا. ہاں ! البتہ اگر شک اور تردید کی حالت میں ہے تو اس کو اصل حقیقت کی کھوج میں جانا پڑے گا اور اگر اس نے حقیقت کو تلاش نہ کیا تو وہاں وہ مقصر ہے. اگر خدا تک پہنچ جائے تو اس کو ماننا چاہئے اور اگر نہ پہنچ سکے تو نہ مانے. لیکن کیا یہ انسانوں کے اتنے ٹولے، اپنے عقیدے کے خلاف کوئی دوسرا احتمال دیتے ہیں؟ ہندو کو اپنے مذہب کی سچائی پر یقین ہے، آگ کی پوجا کرنے والے کو بھی، اسی طرح عیسائی کو بھی اور ہم مسلمانوں کو بھی اپنے دین کی حقانیت کا یقین ہے.
یہاں تک کچھ باتیں «من جاء بالحسنة» کی آیت کے بارے میں بیان کی گئیں. لیکن سورہ عصر «بسم اللہ الرحمن الرحیم، و العصر، ان الانسان لفی خسر، الاالذین آمنوا ...» یہاں پر ایمان سے مراد بھی عملی ایمان ہونا چاہئے. یعنی انسان کو یقین ہونا چاہئے کہ اس کا عمل نیک ہے. نہ یہ کہ اللہ تعالی پر ایمان رکھتا ہو. بلکہ اس کو اپنے کام کی اچھائی کے بارے میں یقین ہونا چاہئے اسی طرح اپنے دوسرے عقائد کا بھی. اگر اس کو اپنے اعمال کا یقین نہ ہوگا تو یہ عمل تکرار نہ ہوگا. اگر عمل کو دھرایا نہ جائے تو اس کا فایدہ بھی نہیں ہوگا. کیونکہ تھوڑی مدت کے لئے ہوگا. روح بھی تکامل نہیں پائے گا. اپنے برے کاموں سے اپنے نیک اعمال بھی ضایع ہوجائیں گے. میرا یہ عمل ممکن ہے مجبوری یا نفسانی خواھشات کی بنا پر ہو. یہ بھی روح کے کامل ہونے میں مانع ہے. ہمارے اس نظریے کی کہ «آمنوا» کا مقصد عملی ایمان ہے، یہ ہے کہ اگر یہاں پر عملی ایمان مراد نہ ہو تو، ظالمانہ تبعیض ہوگی. مثلاً دو آدمیوں نے اچھے کام کیے ہوں، ایک نے اچھا کام کیا ہے، مثال کے طور پر لوگوں کی خدمت کی ہے اور کینسر کی بیماری اور اس کے علاج کے لئے دوائی بنائی ہے لیکن اس کے پاس مسلمان ہونے کا شناختی کارڈ ہے. بعینہ دوسرے شخص نے بھی کینسر کی بیماری کے علاج کے سلسلے میں کام کیا ہے اور پہلے شخص کی طرح انسانیت کی خدمت کی ہے لیکن اس کے پاس مسلمان ہونے کا لائینسنس نہیں ہے، اگر اللہ تعالی قیامت کے دن، پہلے شخص کو جنت میں لے جانا چاہے لیکن دوسرے کو نہ لے جائے تو یہاں پر تبعیض ہوگی. کیونکہ خدا سے کہا جا سکتا ہے کہ: اے میرے اللہ! میں اسلامی لائیسنس نہیں لے سکتا تھا. اب ایسی وجہ سے جس پر میرا اختیار بھی نہیں ہے، میرا حق ضایع کیا جا رہا ہے اور اختیار نہ ہونے کی وجہ سے میرا نیک عمل بھی گنا نہیں جا رہا؟ اس کو ظالمانہ تبعیض ہی کہا جائے گا.
آپ قرآن کی آیات کا غور سے مطالعہ کیجیئے اور جن آیات میں ایمان کے ساتھ کوئی قید (خاص صفت) نہ آئی ہو ان سب کو علیحدہ نوٹ کرلیں. لیکن جن آیات کے ساتھ کوئی قید آئی ہے، ان سب کو عملی ایمان کے معنی میں لیں. یعنی جو جس چیز کو اس نے صحیح سمجھا ہو اور اس پر عمل کیا ہو، اس پر اسے یقین کامل ہو. اس کی وجہ بھی بتائی ہے. ورنہ ظالمانہ تبیعض ہوگی. اور یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو غیر اختیاری عمل کی بنا بر اس کو قصور وار سمجھتا ہو. وہ شخص مسلمان ہے لیکن میرا غیر مسلم ہونا میرے اختیار میں نہیں ہے، اور جو کام اس شخص نے کیا ہے وہی میں نے بھی، لیکن اس کو اس کے عمل کا اجر دیا جائے گا لیکن مجھے نہیں.

سوال. خواتین کے حقوق کے بارے میں آپ کی نظر جاننا چاہتے ہیں؟
جواب. ارث کے علاوہ، خواتین اور مردوں کے تمام حقوق برابر ہیں. ارث بھی جو مردوں کو خواتین کے دوبرابر دیا جاتا ہے، وہاں پر بھی عدالت کا تقاضا یہی ہے. اور ہم نے اس سلسلے میں مفصل طور پر بحث کی ہے اور اس کو اپنی جگہ پر بیان کیا ہے.

سوال. گواھی دینے کے بارے میں دونوں کس طرح ہیں؟ کیا گواھی دینے میں بھی عورت، مرد کے برابر ہے؟
جواب. جی ہاں، ایک جیسے ہیں. عورت کی گواھی، خواتین سے متعلقہ امور میں اور اسی طرح ایسے امور میں جہاں دو عورتوں کی گواھی، دو افراد کی گنی جاتی ہے نہ کہ دو عورتوں کی گواھی ایک مرد کے برابر.

سوال. تو آیت کا کیا بنے گا.
جواب. آیت شریفہ ٹھیک ہے. اب بھی ٹھیک اسی طرح اپنی دلالت پر باقی ہے. اور اس کا مطلب بھی وہی ہے. آیت دَین (قرضہ دینے) کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے. « يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا إِذَا تَدَايَنْتُم بِدَيْن إِلَى اََجَل مُسَمّىً فَاكْتُبُوهُ ... وَاسْتَشْهِدُوا شَاهِدَيْنِ مِن رِجَالِكُمْ فَإِن لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجِلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الاُْخْرَى...» «بقرہ/282» آیت فرماتی ہے کہ دو گواہ آکر گواھی دیں. اور دو عورتوں کا گواھی دینا اس وجہ سے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری عورت کو یاد رہے. اب یہ بھول، کیا عام سی بھول ہے (اگر یہی ہے تو) یہ تو مردوں میں بھی ہو سکتی ہے. یا یہ کہ اس بھول سے کوئی خاص بھول مراد ہے. قاعدتاً یہ کوئی زائد بھول ہونی چاہئے. ورنہ اگر عام سی بھول ہے تو ایک مرد کی بجائے دو مردوں کو گواھی دینے کے لئے نہیں کہا گیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی عام بھول نہیں بلکہ کوئی دوسری بھول کی بات ہے جس کی وجہ اور اس کا فلسفہ واضح ہونا چاہئے. لہذا یہ بھول مردوں کی بھول سے ہٹ کر کوئی اور بھول ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ عورتوں میں کون سے ایسی بھول مردوں سے علیحدہ ہے. یہاں تھوڑی دقت اور توجہ چاہئے. آیت دین (قرضہ دینے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور قرآن کے نازل ہونے کے وقت، خواتین مالی اور اقتصادی معاملات (فنانس) سے نابلد تھیں. کیونکہ خواتین زیادہ معاشرے (باہر کے اجتماعات) میں نہیں تھیں. یہ تو اب ایسا ہے کہ خواتین بازاروں میں جاتی ہیں اور خریداری کرتی ہیں. اور یہ اب ممکن ہوا ہے کہ عورت جا کر ریاضی میں PhD کر سکتی ہے. لیکن اس زمانے میں خواتین اقتصادی اور مالی امور کو کمتر سمجھتی تھیں.
مرد حضرات اپنی ضروریات کی حد تک ان امور سے آشنایی رکھتے تھے. اور وہ لوگ بھی جو ان امور سے واقف نہیں تھے، وہ بھی، عورتوں سے بہت آگے تھے کیونکہ بہرحال اجتماع اور معاشرے میں اپنی معاشیات سے واقف تھے. (خواتین میں سے) صرف حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا) اقتصادی اور تجاری مسائل سے آگاہی رکھتی تھیں، آپ کے پاس اونٹ تھے، اور مضاربہ کے مسائل کو جانتی تھیں. لیکن اکثر خواتین ان مسائل سے ناواقف تھیں. یہ وہی زائد بھول ہے. لذا قرآن کے نزول کے وقت عورتوں میں ایک اضافی بھول تھی. ارشاد ہو رہا ہے «فتذکر احداھما الاخری» ، یعنی وہ دو ہونی چاہییں تا کہ ان دونوں کے ایک ساتھ ہونے سے زیادہ اطمینان حاصل ہو سکے. اور یقین کا درجہ اوپر ہو جائے. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر آج بھی کسی کام میں مثال کے طور پر مردوں کا یادداشت کا درجہ خواتین سے کم ہو تو ان کے بھی چاہئیے کہ ایک کی بجائے دو ہونے چاہئیں. قرآن مجید نے اس کی وجہ اور اس کا فلسفہ بیان فرمایا ہے «ان تضل احدا ھما فتذکر احدا ھما الاخری» اس کا فلسفہ پہلا یہ ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسرا اس کو یاد دلائے. دوسرا یہ کہ دیکھنا چاہئے یہ کون سی بھول کی بات ہو رہی ہے؟ کیا یہ وہی بھول ہے جو مردوں کے لئے بھی ہو سکتی ہے. اگر یوں ہو تو اس کا فلسفہ غلط ہو جائے گا. (کیونکہ مرد تجارت اور اقتصاد کے امور سے آگاہی رکھتے تھے). ممکن ہے آپ کہیں کہ عورتیں ایسی ہوتی ہیں اور یہ صفت مردوں میں بھی ہے تو مردوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہئے.
اس کا جواب یہ ہے کہ، کسی خاص شئی کا فلسفہ اسی تک محدود ہوتا ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی خاص چیز کے لئے مختص فلسفے کو دوسرے امور میں بھی اسی طرح استعمال کیا جائے. تو یہاں پر بھی یہ فلسفہ صرف عورتوں کے لئے ہے. ہم نے کون سی بات سے اس کو جانا کہ یہاں پر صرف عورتوں کی بھول مراد ہے؟ کیونکہ یہ آیت دَین (یعنی قرضہ دینے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے (مالی امور کے بارے میں ہے) اور عورتیں ان امور سے ناواقف تھیں. اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ کیونکہ وہ ان امور سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتیں تو ممکن ہے وہ بھول جائیں لیکن دو ہوں گی تو ایک دوسرے کو یاد دلائیں گی. اس کو ہم اپنی فارسی زبان میں کہتے ہیں کہ اطمینان کا درجہ اور ضریب بڑھ جائے.
نتیجہ یہ کہ، اللہ تعالی نے اس آیت میں اس حکم کی وجہ بھی ساتھ بتائی ہے. اور جہاں بھی قرآن اور حدیث میں کسی حکم کی وجہ بھی ساتھ بتائی جائے، وہاں ہم ایک مورد سے دوسرے مورد میں تعدی کر سکتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ علت حکم کو تخصیص بھی لگا سکتی ہے اور اس حکم کو عام بھی کر سکتی ہے. کیونکہ حکم کا دارومدار علت پر ہے. تو جب گواہوں چاہے مرد ہوں یا عورتیں ان کی معلومات کسی خاص مورد میں دوسری جنس کی نسبت کم ہوں تو وہاں دو ہونے چاہییں.
مثال طور پر اگر خواتین کی معلومات بھی مردوں کے برابر ہو جائیں تو یہ آیت اس کو شامل نہیں کرے گی. ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ آیت صرف اسلام کے ابتدائی ایام کے لئے مختص ہے. بلکہ اس آیت میں موجود حکم دائمی اور ہر زمانے کے لئے ہے. اس میں ایک فلسفہ مستتر ہے. اور وہ یہ ہے کہ ایک جنس کے گواہوں کی معلومات اور قوت یاد داشت دوسری جنس کی نسبت کم نہیں ہونی چاہئے. اگر کم ہوگی تو ایسے موارد میں ہر دو آدمی، ایک آدمی کے برابر ہوں گے. فرق اتنا ہے کہ قرآن کے نازل ہونے کے زمانے میں یہ دین (قرضے) کے بارے میں واقع ہوا تھا لھذا آیت بھی اسی باب میں آئی ہے. لیکن آیت صرف اسی زمانے کے لئے نہیں ہے. آیت ہمیشہ کے لئے ہے. طورل تاریخ میں کہیں بھی اگر مرد یا عورت گواہی دینا چاہیں، تو اگر یاد آوری اور قوت یادداشت کے لحاظ سے، مخالف جنس کی نسبت کم ہوں گے تو قرآن میں بیان کیے گئے فسلفے کے مطابق، دو گواہ ایک فرد کے برابر ہوں گے. يعنى کہ دو مرد ايک عورت کے برابر ہوں گے.
اسى وجہ سے بہت سے فقہاء نے ايسے امور کى نسبت جو صرف خواتين سے مختص ہيں، ان کے بارے ميں دو عورتوں کى گواہى کو دو مردوں کے برابر قرار ديا ہے. کيونکہ وہ ايسے موارد ميں زيادہ معلومات رکھتى ہيں. اب اور بھى تھوڑا سا واضح کر کے بتانا چاہتے ہيں. شادى کى مثال پر توجہ فرمائيں. گذشتہ زمانے ميں خواتين زيادہ تر شاديوں ميں شرکت کرتى تھيں اور مرد بہت کم ہوتے تھے. صرف خاص ٹائم پر شادى ميں جاتے تھے. سارى شادى کى خوشى اور محفل عورتيں سے سجتى تھى. عورتيں ہى ہوتى تھيں جو شادى کرتى تھيں. نکاح کى محفل ميں ہوتى تھيں اسى ليے شيخ مفيد (قدس سرہ) فرماتے ہيں: نکاح ميں دو عورتوں کى گواھى دو مردوں کى گواہى کے برابر ہے.
عورت اور مرد دونوں برابر ہیں، اور اس فلسفہ کی بنا بر جو ہم نے بیان کیا ہے یہی صحیح ہے. کیونکہ کہا جا سکتا ہے کہ نکاح کے امور میں عورتوں کی معلومات زیادہ ہوتی تھی. کیونکہ یہ ان ہی سے مربوطہ کام ہے. ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ سو فی صد. لیکن بات کو سمجھانے کے لئے عرض کیا ہے کہ شیعہ مذہب کا سب سے عظیم فقیہ، شیخ مفید (قدس سرہ) بھی فرماتے ہیں کہ شادی اور نکاح کے معاملے میں دو عورتوں کی گواھی دینا دو مردوں کے برابر ہے. بالکل یہی بات باب شہادت (یعنی گواہی دینے) کے بارے میں بھی جاری ہے. اور ہماری بحث بھی باب شہادت میں تھی. صرف ارث کے باب میں مرد کو عورت سے دوگنا حصہ ملتا ہے جو یہاں پر اس سلسلے میں توضیح دینے کی جگہ نہیں، ورنہ وہ بھی عین عدالت کے مطابق ہے.

سوال. دیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب. دیت میں برابر ہیں، قصاص میں برابر ہیں، قضاوت اور مرجع تقلید ہونے میں بھی برابر ہیں.

سوال. کیا عورت بھی مرجع تقلید بن سکتی ہے؟ اور (اس صورت میں) کیا میں (مرد) عورت کی تقلید کر سکتا ہوں؟
جواب. جی ہاں. اگر عورت واقعی فقیہہ ہے. کیونکہ معیار علم اور مہارت ہے. جیسا کہ آپ طب اور دوسرے علوم میں مہارت اور سپیشلٹی کو معیار، بناتے ہیں، تقلید میں بھی معیار یہی سپیشلٹی ہے.
مثلاً «فاسألوا اھل الذکر» کے باب میں، یہ اھل ذکر کون ہیں؟ جو بھی اھل ذکر ہیں ان میں مرد یا عورت ہونا مھم نہیں. «العلماء ورثة الانبیاء» کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف مرد مراد ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہاں علم معیار ہے. «العلماء ورثة الانبیاء» اور «اطلبوا العلم من المھد الی اللحد» اگرچہ «اطلبوا» کا خطاب مذکر کی طرف ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ ہر انسان کو علم حاصل کرنا چاہئے. «فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم» (میں بھی) تفقہ کو بیان کیا ہے. «لیتفقھوا» ہو یا «یتفقھن» ہو. یہ واضح ہے کہ یہاں مذکر یا مؤنث ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے. تمام اسلامی احکام میں اسی طرح ہے. معیار تقفہ ہے. جو بھی کسی چیز کی تہہ تک پہنچ جائے اس کو چاہئے کہ دوسروں کی ہدایت کرے، چاہے مرد ہو یا عورت.

سوال. حدود کو جاری کرنے مثال کے طور پر رجم کو جاری کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب. اس کا بھی جواب ہے. دیکھیے یہ جو رجم اور اس طرح کے دوسرے امور میں جو آجکل اعتراض ہوتے ہیں، دو فقہی جواب موجود ہیں. (فقہی جواب بیان کریں گے، لیکن قانون میں کیا آیا ہے، یہ ہم سے مربوط نہیں.)
پہلا جواب تو یہ ہے کہ: مرحوم میرزای قمی جو ہمارے بزرگ علماء میں سے ہیں فرماتے ہیں: حدود کا اجرا صرف ائمہ (علیھم السلام) کے حضور کے زمانے سے مختص ہے. اور آج (یعنی غیبت کے زمانے میں) ہم صرف تعزیر اور تنبیہ کر سکتے ہیں. یہ ایک جواب. اس بنا پر اس میں کوئی اشکال نہیں ہے.
دوسرا جواب یہ ہے کہ حدود عِرضی (ناموس سے متعلق امور) جیسے رجم و غیرہ، کے سلسلے میں اسلام کے عدالتی قانون کے مطابق کسی چیز کے ثابت ہونے کا طریقہ کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ عام طور پر ثابت نہیں ہوتا. اور جب ثابت نہ ہو گا تو حد جاری نہیں ہوگی بلکہ اس کو تنبیہ کی جائے گی. اس کو جیل یا کسی بھی اور طریقے سے تعزیر اور تنبیہ کی جائے گی. عِرضی (ناموسی) امور میں یا چار عادل گواہ، گواہی دیں «کالمیل فی المکحلة» (سرمہ دانی میں سرمہ لگانے والی سلائی) جسیے چار عادل گواہ، گواہی دیں کہ مرد نے عورت کے ساتھ زنا کیا ہے. اور کہیں کہ «انا رأینا کالمیل فی المکحلة یخرج و یدخل»، (ہم نے دیکھا ہے کہ سلائی جیسے سرمہ دانی میں داخل ہو رہا تھا اور اس سے نکل رہا تھا). کیا یہ چیز ممکن ہے؟ صرف اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ لوگ سب کے سامنے باہر سڑک پر فساد اور گناہ کریں اور بے عفتی سب معاشرے میں پھیل چکی ہو. امام جماعت بھی اس کا مشاہدہ کرے. بلکہ خود مشاہدہ کرنا بھی شاید ٹھیک نہیں ہے. اور یہ ایسے موارد میں ہے جو کبھی بھی رونما نہیں ہوتا. یہ فرض کیجئے کہ تمام معاشرے میں بے راہ روی ایسی پھیل گئی ہو کہ روڈ پر مرد اور عورتیں سب گناہ کرنے میں مصروف ہوں، امام جماعت آئے اور اس کی نظر پڑے. اور وہ بھی آ کر چار گواہوں کو ساتھ ملائے. یا بصورت دیگر (وہ گناہکار شخص) دینی ضمیر کے جاگنے کی بنا پر آ کر خود چار دفعہ اقرار کرے. یعنی گناہ سے پاک ہونے کے لئے آ کر اقرار کرنا چاہے. وہ بھی دینی ضمیر کی بنا پر اقرار کرنے والے شخص کو ہر بار اقرار کرنے کے بعد، اسے چھوڑ دیا جائے گا. اگر دوسری مرتبہ آ جائے تو پھر اسے چھوڑ دیا جائے گا. تیسری مرتبہ پھر چھوڑ دیا جائے گا. اور ایسے اقرار کا بھی کوئی فائدہ نہیں جو کسی کو جیل میں ڈال کر یا اس کو یہ کہہ کر کہ اگر اقرار کرے گا تو اس کو معاف کر دیا جائے گا یا وہ ڈر کے مارے اقرار کر لے، بلکہ اس کا اقرار کرنا بھی اس کے اپنے دینی ضمیر کی بنا پر ہونا چاہئے جو عام طور پر ایسا نہیں ہوتا.
ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے حضور میں آ کر ایک عورت نے اقرار کیا کہ «انی زنیت فطھرنی» میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کرو. حضرت امام علی علیہ السلام نے (اپنے ساتھیوں سے) فرمایا: جا کر اس عورت کو دیکھو کہیں پاگل تو نہیں ہے. انہوں نے کہا: نہیں. حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا: چلی جاؤ. (فی الواقع) حضرت چاہتے تھے کہ وہ عورت دوبارہ لوٹ کر نہ آئے. کچھ عرصہ گذرنے کے بعد وہ عورت دوبارہ واپس آئی. اور اپنی بات کو دہرایا «انی زنیت فطھرنی» میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کرو. یہ دینی ضمیر ہے. حضرت علیہ السلام نے پھر وہی فرمایا کہ دیکھو کہیں دیوانی تو نہیں؟ کہیں اس کا عقل کھو تو نہیں گیا؟ کیونکہ حدود کو کسی شبہ کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے. اور اسے درء کیا جاتا ہے. انہوں نے کہا: نہیں. یہ پاگل نہیں ہے. تیسری مرتبہ پھر وہ عورت آئی اور کہا «انی زنیت فطہرنی». اپنی داستان کو دوبارہ دہرایا. حضرت نے فرمایا: چلی جاؤ. چوتھی مرتبہ پھر واپس پلٹی. دوبارہ وہی مقدمات دہرائے گئے. وہ عورت حاملہ تھی. چوتھی مرتبہ اقرار کرنے کے بعد، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اب چلی جاؤ، جب بچہ متولد ہو جائے، تب واپس آ جانا. یہ سب چیزیں بہانہ تھیں کہ وہ چلی جائے اور پھر واپس نہ آئے.
خلاصہ یہ اگر یہ اقرار دینی ضمیر کے جاگنے کی بناپر نہ ہوگا تو واپس جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آئے گا. نہ کوئی اس کے تعاقب میں ہو اور نہ ہی جیل اور قید کا ڈر. یہ سب بہانے ہیں.
وہ عورت چلی گئی اور اپنا بچہ جننے کے بعد دوبارہ واپس آ گئی. حضرت نے فرمایا: فعلاً چلی جاؤ! جب تمہارا پچہ بڑا ہو جائے اتنا کہ اپنے بارے میں صحیح اور غلط کو سمجھ سکے، اس وقت آ جانا، تب میں حد کو جاری کروں گا.
اسی وقت جب وہ باہر جا رہے تھے، اسلام (کی حقیقت) سے ناواقف کسی ایک شخص نے اس عورت کو دیکھا کہ ناراضگی سے باہر جا رہی ہے. وجہ دریافت کی اور پوچھا کہ حضرت علی علیہ السلام کے حضور سے ناراضگی سے کیوں باہر جا رہی ہو؟ کہا کہ میں چاہتی تھی کہ مجھ پر حد جاری ہو لیکں حضرت نے فرمایا کہ اس بچے کو پال کر بڑا ہونے دو، تب میں حد جاری کروں گا. اس شخص نے کہا: میں ضامن بنتا ہوں، چلو حضرت کے پاس واپس چل کر میں کہوں گا کہ اس بچے کو پالنے کی میں ضمانت لیتا ہوں. حضرت کے پاس لوٹ آئے. حضرت کو معلوم ہو گیا کہ یہ شخص اس کا ضامن بننا چاہتا ہے تو بہت برافروختہ ہو گئے اور غصے کے آثار نمایاں ہونے لگے. شخص نے عرض کی کہ میں نے کون سا ایسا کام کیا ہے جو آپ مجھ سے اتنا ناراض ہیں؟ حضرت نے فرمایا: آپ یہاں کیوں آئے ہو؟ شخص نے عرض کی ہم یہاں اس لئے آئے ہیں کہ میں اس بچے کو پالنے کی ضمانت لیتا ہوں تا کہ اس عورت پر حد جاری ہو سکے. حضرت نے فرمایا: تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے جو اس کی ضمانت لی ہے.
ایسے امور محقق نہیں ہوتے، لیکن معاشرے میں برائیوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ دنیا میں معمول طریقوں سے تنبیہ اور سزا دینے سے یہ امر محقق ہو سکتا ہے.
خلاصہ یہ کہ دو رستے موجود ہیں؛ ایک تو یہ کہ وہ (فقہاء) کہتے ہیں کہ یہ (سزائیں) ائمہ علیھم السلام کے حضور کے زمانے سے مختص ہیں اور اب ان کو جاری کرنا جائز نہیں ہے. دوسرا یہ کہ جو ہم نے عرض کیا ہے کہ طریقوں میں اصلاحات لائی جائیں. کیونکہ (ان شرائط میں) قاضی کا یقین بالکل فائدہ مند نہیں ہے. اس نے کچھ قرائن اور شواہد کو اکٹھا کر کے اس پر یقین کر لیا ہے کہ مثلا فلان عورت نے زنا کیا ہے. اس کا فائدہ نہیں ہے. اور اس یقین کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے. اطمینان کا بھی فائدہ نہیں ہے. لوگوں کا ادعا کرنا، ایک ہجوم کا ادعا کرنا اس میں بھی کوئی فائدہ نہیں ہے.
یا چار عادل گواہ جنہوں نے «کالمیل فی المکحلہ» کی گواہی دی ہو اور وہ بھی عادل ہوں اور مرد ہوں کیونکہ اس مورد میں عورتوں کی گواہی بھی نہیں مانی جائے گی. کیونکہ اسلام نہیں چاہتا ہے کہ ایسے امور کا راستہ کھول دے. لہذا کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی. بصورت دیگر چار بار اپنے دینی ضمیر کے بیدار ہونے کی بنا پر اور آزادانہ طور پر اقرار کرے. ایسی چیز کہاں ملے گی؟ لیکن اگر قاضی نے کچھ شواہد اور قرائن کی بنا پر یقین کر لیا ہو کہ اس عورت نے زنا کیا ہے تو بھی ہماری نظر میں اس کو چاہئے کہ حد جاری نہ کرے بلکہ اس کو تنبیہ کرے.
ہمارے لئے بہت نئے اور اچھے امور تھے.
جواب. ہمارے ہاں جب ایران سے باہر کے صحافی اور رپورٹر حضرات تشریف لاتے ہیں اور ان سے بات چیت ہوتی ہے تو وہ بہت حیرت زدہ ہوتے ہیں. ہم ان سے کہتے ہیں کہ تمام بشریت کو اکٹھا کر کے اگر ان کے درمیان ایک کرسی لگا دی جائے اور ہم آئیں گے سب سے بات کریں گے. سات کروڑ کی آبادی سے آٹھ کروڑ کو ہم موحد بنا دیں گے.
کیونکہ سب سے زیادہ خوبصورت (اور قابل عمل) قانوں صرف اسلام کے پاس موجود ہے.
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ.
تاريخ: 2005/03/21
ويزيٹس: 6422





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org