Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بيانات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: روز اول سے ہی جب حضرت آدم زمین پر تشریف لے آئے اور بولنا شروع کیا ہے، اسی دن سے کربلا کا ذکر شروع ہوا ہے.
محرم کی مناسبت سے آپ کا خطاب روز اول سے ہی جب حضرت آدم زمین پر تشریف لے آئے اور بولنا شروع کیا ہے، اسی دن سے کربلا کا ذکر شروع ہوا ہے.

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کچھ باتیں تذکر کے طور پر آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں.
سب سے پہلے تو یہ کہ امام حسین علیہ السلام اور محرم اور عاشورا کو جس طرح اسلام اور اللہ تعالی نے اہمیت دی ہے، ہم کو بھی اسی طرح اہمیت دینی چاہئے. حضرت امام حسین علیہ السلام اور عاشورا کا واقعہ تاریخ کی ابتدا سے ہی موجود تھا. یعنی روز اول سے ہی جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لے آئے اور بولنا شروع کیا ہے، اسی دن سے کربلا کا ذکر ہونا شروع ہوا ہے. زمین کے جس حصے پر اتارے جاتے ہیں وہاں وہ غمگین ہو جاتے ہیں. پوچھتے ہیں کہ اس جگہ کا نام کیا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا جائے گا. اور آپ کے غمگین ہونے کی وجہ بھی یہی ہے.
اس کے بعد بھی تمام انبیاء اور اولیاء آتے رہے اور اس کا ذکر ہوتا رہا، یہاں تک کے حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باری آتی ہے. اب حضرت پیامبر نے اس حادثے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، تاریخوں میں آیا ہے کہ کوئی چھوٹا سا بچہ گلی میں کھیل رہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اٹھا کر بہت پیار کیا. آپ سے پوچھا گیا کہ اتنے سارے بچوں میں سے، اس بچے کو کیوں اٹھا کر پیار فرمایا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ یہ بچہ ایسے افراد میں سے ہوگا جو کل صحرائے کربلا میں، میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی مدد کرے گا اور شہید ہو جائے گا.
حتی عبادات کے بارے میں بھی، حالانکہ عبادات توقیفی امور میں سے ہیں، لیکن عبادات میں بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کا کردار ہے. روایت میں آیا ہے کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کو شروع کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی کھڑے تھے. حضرت پیامبر نے کہا «اللہ اکبر». حضرت امام حسین علیہ السلام صغر سن کی بنا پر (بچپنے کی وجہ سے) نہیں کہہ پائے. پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، سات مرتبہ تک «اللہ اکبر» کو دہراتے رہے. ساتویں مرتبہ امام حسین علیہ السلام نے کہا «اللہ اکبر». اسی وجہ سے چھ تکبیریں مستحب اور ساتویں تکبیر کو «تکبیرة الاحرام» یعنی واجب قرار دیا گیا.
کہا گیا ہے کہ نماز میں سات تکبیریں کہنے کی ایک حکمت اور وجہ یہی واقعہ ہے. لذا دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا عبادات میں بھی دخل ہے.
لیکن تاریخ کی ابتداء سے، کربلا کی یہ جو اہمیت چلی آرہی ہے، ہم کو چاہئے کہ ہم اس پر فقیہانہ نظر کریں اور یوں ہی سرسری نگاہ سے اسے نہ دیکھا جائے. مطالعہ اور فکر کر کے دوسروں کے لئے بیان کرنا چاہئے. کم از کم محرم کے عشرے اور عاشورا کے ایام میں.
تفقہ (دین کے بارے میں انھماک سے مطالعہ) قرآن اور سنت کے لحاظ سے دو زمانوں میں واقع ہوا ہے. ایک بار جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «و ما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذورن» (توبہ/١٢٢). اور دوسری مرتبہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں جو بہت محسوس ہے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے کلمات میں بھی یہ چیز نظر آتی ہے.
لیکن فرق یہ ہے کہ، بعثت کے اوائل میں تفقہ کا مطلب کسی چیز کی اصلیت تک جانا اور مسائل کا گہرائی سے مطالعہ کرنا تھا. یعنی اسلامی مسائل کی تحلیل و تفسیر کرنا. البتہ آپ کو معلوم ہوگا ہی کہ صرف مسائل کے جاننے کو تفقہ نہیں کہا جاتا کیونکہ فقہ کا مطلب یہ ہے کہ گھرائی میں جا کر کسی چیز کا ادراک کرنا.
ہماری نظر میں، حضرت امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں فقہ کے مطرح ہونے سے، اسلامی علوم کے پھیلنے پر بہت زیادہ اثر ہوا ہے. اس کا کچھ حصہ اپنے والد کے ذریعہ اور کچھ حصہ آنحضرت علیہ السلام کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوا.
دوسرا نکتہ یہ کہ اب جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ مسائل کی گہرائی اور جڑھ تک جانا چاہئے. ہمارے پاس جو بھی تفقہ کے بارے میں روایات موجود ہیں وہ سب حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں. آج ہمیں چاہئے کہ اپنے پاس موجودہ معلومات کی روشنی میں تحقیقوں پر ایک نئی تحقیق کا اضافہ کیا جائے. اور تمام مسائل میں فقیہانہ کاوش کی جائے. جو کچھ دوسرے لکھ کے چلے گئے صرف ان ہی کو بیان نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ہمارے معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.
ہم دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر موظف ہیں، کیونکہ ہم نے اسلام کو قبول کیا ہے تو اسلام کا ہم پر حق ہے. کسی کو اسلام سے بدظن نہیں ہونے دینا چاہئے. یا یہ کہ عاشورا کے دن کے کسی واقعہ سے بدظن ہو جائے. اسی طرح شیعہ فقہ پر بھی آنچ نہیں آنی چاہئے.
اگر کوئی شخص اسلام سے بدظن ہو کر اسلام کے راستے سے منحرف ہو جاتا ہے، اور ہم اس کو منحرف ہونے سے روکنے کی توانائی رکھتے ہوئے بھی اس کو نہ روکا ہو، تو اس کا اسلام سے دور چلے جانے کا گناہ ہمارے اعمال نامے میں بھی لکھا جائے گا. لہذا ہمیں چاہئے کہ مسائل کو اچھی طرح سے تجزیہ اور ان کی تحلیل کریں اور تفقہ اور دقت نظر سے اس راستے میں قدم رکھیں.
سب سے پہلی چیز جو امام حسین اور کربلا کے واقعہ سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں (سیکھ سکتے ہیں) «فتک» یعنی دہشت گردی کی نفی ہے. آج جو احترام شیعہ مذہب کو حاصل ہے صرف اس لئے ہے کہ اپنى اور ہاہر کی حکومتوں کی دہشت گردی میں شریک نہ ہوئے. ہمارا یا کسی اور شیعہ فرد کا بمب دھماکوں میں کوئی دخل نہیں ہے.

روایتی طریقے سے عزاداری کو بحال رہنے دیجئے. لیکن بے بنیاد اور موہوم مسائل کو امام حسین علیہ السلام کی طرف نسبت نہ دی جائے.
آج شیعہ فرد کی ایک خاص حیثیت ہے. اقتدار میں رہنے والے لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ شیعوں کے ساتھ دشمنی میں کمی کریں. وہ لوگ جو اسلام کو مار پیٹ اور لوٹ کھسوٹ و غیرہ ... کا دین سمجھتے ہیں اگر کافی سوچ و فکر رکھتے ہوں تو ان کو چاہئے کہ ان اعمال سے پرہیز کر کے شیعہ مذہب کے عاطفی اور جذباتی اور احساساتی پہلو کی طرف لوٹ آئیں. لیکن شیعہ دہشت گردی کی مذمت کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کربلا کے حادثہ میں، جب حضرت مسلم کوفہ میں تشریف لے آئے. انہی ایام میں ایک دن عبیداللہ بن زیاد، شریک بن عبداللہ کا حال پوچھنے اس کے گھر آیا. حضرت مسلم وہیں پر ساتھ والے کمرے میں تشریف فرما تھے اور تلوار بھی تیار تھی، اگر چاہتے تو وہیں پر اس کا کام ختم کر دیتے. لیکن حضرت مسلم نے یہ کام نہیں کیا. عبیداللہ کے جانے کے بعد، شریک نے حضرت مسلم سے وجہ پوچھی تو حضرت مسلم نے فرمایا : «ان الایمان قید الفتک» ایمان اس طرح کے قتل (دہشت گردی) کرنے سے روکتا ہے.
کربلا کے واقعے میں یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے. اس کا مطلب ہے کہ کربلا کا واقعہ دہشت گردی کے خلاف ہے. چاہے عبیداللہ کو نہ مارنے کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام کے تمام صحابی شہید ہو جائیں جیسا کہ اس طرح ہوا ہے.
کربلا کے واقعہ میں جو چیز زیادہ توجہ کی طالب ہے وہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت ہے. یعنی مظلوم کے خون کی ظالم کی تلوار پر فتح ہوئی ہے نہ کہ تلوار کی خون پر.
امام حسین علیہ السلام کی روش ایسی روش ہے کہ اگر کوئی اس راستے پر چلنا چاہے تو خدا اور اسلام کی خاطر اس کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے. ایسا قیام جس ایک طرف بہت طاقتور دشمن ہے اور دوسری طرف صرف چند صحابی ہیں.
اسی طرح ہمیں کربلا سے سیکھنا چاہئے کہ لوگوں سے کس طرح بات کی جائے. حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایسا واقعہ خلق کیا جسے کربلا کہا جاتا ہے. خود اور آپ کے ساتھ بہتر افراد شہید ہوئے جو ہر ایک کروڑوں انسانوں کے برابر ہیں. حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے جد امجد کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، آپ سے فرما رہے ہیں اس حادثے کی طرف چلے جاؤ. لیکن دیکھنا یہی ہے کہ کیا اس واقعے کی اصلی وجہ اور اس کی سند صرف یہی خواب تھا؟ اور کیا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے زمانے تک کے رونما ہونے والے تاریخی حوادث کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا؟
(امام حسین علیہ السلام کا موجودہ حکومت کے بارے میں موقف تو) سب پر عیاں تھا اور اس چیز کے کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ میں نے خواب دیکھا ہے. لیکن امام حسین علیہ السلام کا سامنا جب ایسے افراد سے ہوتا ہے جو یہ ظرف نہیں رکھتے (کہ اصل حقیقت کو جان سکیں) اور امام حسین علیہ السلام کو روکنا چاہتے ہیں. اور کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے پاس ان کو سمجھانے کے لئے کوئی اور طریقہ نہیں ہے تو فرماتے ہیں کہ: «میں نے اپنے جد گرامی کو خواب میں دیکھا ہے اور اس لئے مجھے ضرور جانا ہی جانا ہے».
امام حسین علیہ السلام کے لئے رونے کا بہت ثواب ہے. امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری کرنے کا بھی بہت ثواب ہے. امام حسین علیہ السلام سے متعلق روایات کو نقل کرنے کا بہت اجر ملتا ہے. (امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں) لوگوں کو کسی سنت حسنہ سے نہ روکا کریں. روایتی طریقے سے عزاداری کو بحال رہنے دیجئے. لیکن بے بنیاد اور موہوم مسائل کو امام حسین علیہ السلام کی طرف نسبت نہ دی جائے. اگر (اس سلسلے میں) ضعیف روایتیں بھی پڑھی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسی موہوم چیزوں کو نقل نہ کریں جس کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہے. ایسی چیزیں نہیں بتانی چاہئیں جس کو ہمارا مخاطب اور ہمارا سننے والا سمجھ نہیں سکتا. بلکہ ایسی چیزوں کا بیان کرنا شاید حرام ہو بود. کیونکہ اس سے مذہب (شیعہ) کی توہین ہو گی.
اسی طرح روایتی عزاداری کرنے میں اس چیز کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس کے اصلی ہدف اور فلسفے کی حفاظت کی جائے. گذشتہ زمانوں میں یہ روش ہوتی تھی کہ عزاداری کی مجالس میں، فقہ اور دین مسئلے بھی بتائے جاتے تھے. دینی مسئلے بتاتے وقت ایسے مسئلے بتانے سے پرہیز کریں جن کا جواب نہ دے سکیں. ایسے مسائل جو اختلافی ہیں ان کو بیان کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا بلکہ بعض جگہوں پر نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے. تو خیال کیجئے کہ ضروری اور لازم مسائل بیان کریں.
ایسا کام کریں کہ اسلام دوبارہ سے زندہ ہو جائے. ایسا کام کریں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد زندہ اور باقی رہے کیونکہ اگر امام حسین بن علی علیہ السلام کا مقصد زندہ رہے گا تو دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے.
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ.

تاريخ: 2005/02/14
ويزيٹس: 8138





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org