دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ کل تک جس راستے پر چلا ہے، اس میں خرابی تھی تو اس کو اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہئے تا کہ اس کا نقص ختم کیا جا سکے
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی: اگر جو راستہ ہم نے طے کیا ہے اس میں خرابیاں تھیں تو اس کو تبدیل کرنا چاہئےاگر کوئی اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ کل تک جس راستے پر چلا ہے، اس میں خرابی تھی تو اس کو اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہئے تا کہ اس کا نقص ختم کیا جا سکے
۱۰ ستمبر بروز جمعۃ المبارک، نماز عید الفطر حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی مد ظلہ العالی کی امامت میں ادا کی۔
تمام اسلامی اقوام کے لئے عید الفطر کی نماز کا فلسفہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر کل جس راستے پر چل رہے تھے اور اس میں اسلام کی عزت پر آنچ آئی ہے یا اسلامی قوانین کو پامال کیا گیا ہے، تو آج کے بعد ایسا عمل کرنا چاہئے کہ ان نقصانات کی تلافی ہو سکے اور اسلام کی عزت کو بچایا جا سکے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نے آج صبح عید الفطر کی نماز کے خطبوں میں جو آپ کے دفتر میں پڑھائی گئی، فرمایا: فطریہ کی زکات کو عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہئے۔
آپ نے اس عمل کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ فقیر اور مستحق افراد کو جب یہ زکات موصول ہو گی تو بھی عید کی خوشی میں ہمارے ساتھ خوش ہوں گے؛ چاہے یہ عید ہر ایک کے لئے معنوی لحاظ سے عید ہی ہے، لیکن جو فقیر اور بھوکے افراد ماہ رمضان میں بھی اور غیر ماہ رمضان میں بھی بھوک کی وجہ سے پریشان رہتے ہوں تو ان کے لئے عید کی خوشی کیسی؟
شیعہ مرجع تقلید نے اپنے بیانات کے دوسرے حصے میں فرمایا: روایت میں ملتا ہے کہ حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی نماز کو جاتے، ایک راستے سے جاتے اور واپسی کے لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے؛ بعض فقہاء نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس عمل کے بارے میں کہا ہے کہ، حضور (ص) سب کو بتانا چاہتے تھے کہ زندگی میں ہمیشہ اپنا راستہ تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے تا کہ بہتر سے بہتر راستہ اختیار کیا جا سکے۔
آپ نے مزید فرمایا: اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ کل تک جس راستے پر چلا ہے، اس میں خرابی تھی تو اس کو اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہئے تا کہ اس کا نقص ختم کیا جا سکے، اور اسی غلط راستے کو ہی نہ اپنایا جائے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی مد ظلہ العالی نے فرمایا: کوئی بھی چاہے معاشیات، سیاست، فتوا دینے میں، کوئی نظریہ دینے میں یا قانون بنانے میں صرف ایک ہی راستے پر نہ چلتا رہے بلکہ بہتر سے بہتر طریقوں کی تلاش میں رہنا چاہئے۔
اسی طرح ہر فرد کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر کل تک جو طریقہ اپناتا رہا ہے اور اس میں لوگوں پر ظلم و ستم کیا ہے، تو کل قیامت کے دن مشکلوں اور عذاب میں مبتلا ہو گا۔
درس خارج کے برجستہ استاد نے فرمایا: آیات و روایات اور اسی طرح تجربہ اور عقل کے مطابق، اور جس نے بھی ظلم کیا ہو، آخرت میں عذاب سے مبتلا ہونے سے پہلے اسی دنیا میں دنیاوی عذاب کا مزا چکھے گا؛ اگر اس نے لوگوں کو رلایا ہے تو خود بھی روئے گا؛ اگر بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو نقصان پہونچایا ہے تو اس کو بھی اسی دنیا میں نقصان پہونچے گا۔
آپ نے مزید فرمایا: اگر کسی نے لوگوں پر ظلم کیا تو قیامت کا عذاب تو اپنی جگہ پر باقی ہے، لیکن وہ اس دنیا میں بھی عذاب کا شکار ہو گا اور اس کے بعد جتنی بھی دعا کرے گا اس کی کوئی مشکل حل نہ ہوگی اور اس کی کوئی دعا قبول نہ ہو گی، کیونکہ وہ خود اس کا سبب بنا ہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی نہ تاکید فرمائی: تمام اسلامی اقوام کے لئے عید الفطر کی نماز کا فلسفہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر کل جس راستے پر چل رہے تھے اور اس میں اسلام کی عزت پر آنچ آئی ہے یا اسلامی قوانین کو پامال کیا گیا ہے، تو آج کے بعد ایسا عمل کرنا چاہئے کہ ان نقصانات کی تلافی ہو سکے اور اسلام کی عزت کو بچایا جا سکے۔
ایلنا خبر رساں ایجنسی