دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: تمام وہ لوگ جو انسانوں کي خدمت کرتے ہيں، اللہ تعالي کے ہاں محبوب ہيں.
امريکہ کي پيس اينڈ کنفلکٹ سلوشنر تنظيم نے آپ سے ملاقات کي.تمام وہ لوگ جو انسانوں کي خدمت کرتے ہيں، اللہ تعالي کے ہاں محبوب ہيں.
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي، امريکہ کي پيس اينڈ کنفلكٹ سلوشنر تنظيم سے خطاب فرماتے ہوئے.
تمام وہ لوگ جو انسانوں کي خدمت کرتے ہيں، اللہ تعالي کے ہاں محبوب ہيں.
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے پيس اينڈ کنفلكٹ سلوشنر تنظيم سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا: «اللہ تعالي کے تمام انبياء اور پيغمبروں کي يہي کوشش تھي کہ اس حقيقت کو بيان کر سکيں کہ اللہ تعالي نے دين اسلام کو اپنے لئے منتخب فرمايا ہے اور اسلام کا مطلب ہے کہ حق اور عدالت کو تسليم کرنا.»
جہاں کہيں پر ديني عمائدين کي محبت لوگوں پر واجب کي گئي ہے، وہاں پر ان کے قائدين پر بھي واجب ہے کا ايسا کردار اپنائيں جس کي وجہ سے لوگ ان سے لگاؤ پيدا کريں ۔
آپ نے مزيد فرمايا: «انبياء عظام کے علاوہ دنيا کے تمام عقلاء اور صاحب فکر لوگ بھي صرف اس ايک مقصد کے لئے حرکت ميں آئے ہيں کہ حق اور عدالت کو معاشرے ميں پھيلا کر، انسانوں کو حق و عدالت کا مطيع بنا سکيں.»
آپ نے فرمايا: «اس بنا پر نيک اور پسنديدہ عمل اور انسانوں کي خدمت کرنا جس شخص سے بھي صادر ہو گا وہ اللہ تعالي کے ہاں اجر پائے گا. کيونکہ قرآن کريم کي صراحت ہے کہ اللہ تعالي سب کو جزاے خير دے گا، چاہے وہ کوئي بھي ہو، في الواقع جو بھي انسانيت کي خدمت کريں گے وہ اللہ تعالي کے محبوب بندے ہونگے.»
اس مرجع عاليقدر نے اس امريکي تنظيم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا: «توجہ رکھني چاہئے کہ تمام الھي اديان کي بنياد، محبت اور انسانوں کے آپس ميں پيار پر استوار ہے، اور يہ ايسا مسئلہ ہے جس پر دنيا کے تمام عقلاء اور صاحب فکر لوگوں کو توجہ کرني چاہئے.»
آپ نے اس نکتے کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلام صر ف ايسے انساني حقوق اور صرف ايسي جمہوريت کو قبول کرتا ہے جس کي بنياد عوام اور حاکموں کي آپس ميں دوستي اور تعامل پر مبني ہو، يوں ارشاد فرمايا: «سب سے عالي ترين انساني حقوق اور بھترين جمہوريت وہ ہوتي ہے جہاں پر قوم اپنے حاکموں کو دوست رکھتي ہو اور جہاں کہيں پر ديني عمائدين کي محبت لوگوں پر واجب کي گئي ہے، وہاں پر ان کے قائدين پر بھي واجب ہے کا ايسا کردار اپنائيں جس کي وجہ سے لوگ ان سے لگاؤ پيدا کريں اور ايسا نہ کيا تو انھوں نے اللہ تعالي کے قانون کي خلاف ورزي کي ہے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے فرمايا: «اس قسم کي محبت اور دوستي سے کام آگے بڑھتا ہے اور اس کي صرف ايک ووٹ دينے سے کئي گنا زيادہ اھميت ہے. عوام کا فرض بنتا ہے کہ اطاعت کريں اور رھبروں کا فرض بنتا ہے کہ ايسا کردار اپنائيں کہ لوگ ان سے پيار کريں اور اگر چھوٹا سا ظلم بھي کريں گے تو يہ بہت بڑا گناہ ہوگا.»
آپ نے آگے بڑھتے ہوئے، حضرت امام سجاد عليہ السلام کي اس کلام کي طرف اشارہ فرمايا جو زيارت امين اللہ ميں ذکر ہوئي ہے کہ «اللھم فاجعل نفسي ... محبوبۃ في ارضک و سمائک» (اے ميرے اللہ! مجھے ايسا بنا دے کہ دنيا کے تمام لوگ مجھے دوست رکھيں» آپ نے مزيد فرمايا: «اگر ہميں دوسرے لوگوں کي محبت اور ان کا پيار چاہئے تو ہم کو بھي چاہئے کے لوگ ہم سے راضي رہيں اور نہ صرف انسانوں سے بلکہ حيوانات اور بلکہ ماحول سے بھي پيار کرنا چاہئے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے اپني گفتگو کے دوسرے حصے ميں فرمايا: «ہماري نظر ميں نسل اور جغرافيا يا قوم اور دين کي وجہ سے کسي کو اپنے حقوق سے محروم نہيں کيا جانا چاہئے. اسلام اور قرآن کي نظر ميں صرف انسانوں کا ايک چھوٹا سا گروہ اپنے بعض حقوق سے محروم ہے اور وہ بھي کافر ہيں اور کافر کا مطلب ہرگز غير مسلمان نہيں ہے بلکہ کافر وہ ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ اسلام دين حق ہے ليکن اس کے با وجود اللہ تعالي کے دين سے دشمني کرتا ہے اور ديني مقدسات کي توہين کرتا ہے.»
آپ نے اپني گفتگو کے آخري حصے ميں فرمايا: «تمام جنگوں کي اصلي وجہ ظلم اور تبعيض ہوتي ہے ليکن جب عدالت کو انسانوں کے حقوق کي اصل اور بنياد سمجھا جائے اور جب حکومتوں کي بنياد عوام سے محبت اور پيار پر رکھي جائے، تو پھر اس کا مطلب صلح اور سکون ہو گا جو اسلام کي اصل اور بنياد بھي صلح اور عدالت پر رکھي گئي ہے.»تاريخ: 2007/10/26 ويزيٹس: 9008