دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: اسلام میں زبان اور رنگ کبھی بھی تبعیض کا سبب نہیں تھا اور نہ ہے، لہذا کالا اور گورا و غیرہ ... سب حقوق میں برابر ہیں، مسلمان اور غیر مسلم برابر ہیں.
برطانیہ سے شائع ہونے والی اخبار «گارڈین» کے صحافی ڈینیل ڈاوس سے انٹرویواسلام میں زبان اور رنگ کبھی بھی تبعیض کا سبب نہیں تھا اور نہ ہے، لہذا کالا اور گورا و غیرہ ... سب حقوق میں برابر ہیں، مسلمان اور غیر مسلم برابر ہیں.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت آیة اللہ العظمی صانعی نے برطانیہ سے شائع ہونے والی اخبار «گارڈین» کے صحافی ڈینیل ڈاوس کے سوال کے جواب میں جو اسلام میں عورت اور مرد کی دیت کے بارے میں تھا، یوں فرمایا:
جو قانون میں آیا ہے اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے وہ بہت سے بزرگان اور اہل فن حضرات کے فتووں سے مطابقت رکھتا ہے. اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ ہمارا ذاتی نظریہ ہے جو ہم نے اسلام سے اخذ کیا ہے. ہمارے لئے بہت مشکل تھا کہ اس چیز کو قبول کریں کہ عورت، ایک انسان ہوتے ہوئے، اس کا خون اور دیت (خون کے بدلہ میں دیے جانے والی رقم)، مرد سے مختلف ہو، کیونکہ دونوں انسان ہیں.
عورت اور مرد دیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور ان کے خون کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ان کی سزائیں بھی ایک جیسی ہیں. ہاں البتہ جن فقہاء نے ہم سے پہلے دوسرے فتوے دیے ہیں وہ بھی معذور ہیں۔
ایک انسان کی دیت دوسرے انسان کی نسبت کیوں آدھی ہو؟ اور اس صورت میں جب کوئی مرد، کسی عورت کو قتل کر دیتا ہے، اگر اس عورت کے ورثاء، اس قاتل مرد کو قصاص کرنا چاہیں تو ان کو چاہئے کہ مرد کے ورثاء کو دیت کا آدھا حصہ دیں تا کہ اس کا قصاص کر سکیں. لیکن جب کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو اس کو قصاص کر دیا جاتا ہے بغیر اس کے کہ اس کے ورثاء یا اس کی اولاد کو کچھ بھی دیا جائے. اور (پہلی صورت میں)، اگر قتل ہو جانے والی عورت کے ورثاء، اس دیت کا آدھا حصہ، قاتل مرد کے ورثاء کو نہ دے سکیں تو اس مرد کو قصاص (قتل) نہیں کیا جا سکتا، اور عورت کے وارث صرف یہ دیکھتے رہ جائیں گے کہ قاتل زندہ ہے. یہی اشکال تھے جن کے سبب ہم دیت کی بحث میں وارد ہوئے.
آپ نے اپنے بیانات کے دوسرے حصے میں اس نکتے کا ذکر کرتے ہوئے کہ «پچھلے زمانوں میں ارتباطات کے محدود اور کم ہونے اور اسی طرح سے قتل اور آدم کشی کی مقدار کے کم ہونے کی وجہ سے ان اشکالات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی، اور کل کے بڑے بڑے فقیہوں کی نظر میں بھی نہیں آتے تھے، لہذا اپنی بساط کے مطابق اسلام سے سمجھی ہوئی چیزوں پر اکتفاء کرتے تھے» یوں فرمایا:
لیکن جب ہم نے ان آیات اور روایات کو ملاحظہ کیا تو ہمارا نظریہ یہ ہوا کہ عورت اور مرد دیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور ان کے خون کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ان کی سزائیں بھی ایک جیسی ہیں. ہاں البتہ جن فقہاء نے ہم سے پہلے دوسرے فتوے دیے ہیں وہ بھی معذور ہیں، (اللہ تعالی کی بارگاہ میں عذر رکھتے ہیں) اور ہم بھی معذور ہیں جو ہمارا یہ نظریہ ہے، کیونکہ ہر علم اور فن میں یہ ممکن ہے کہ اس کے اصول سے مختلف برداشتیں اور قرائتیں کی جائیں. ہمارے دینی قوانین سے یہ نظریے نکالنا بھی اسی قسم کا اختلاف ہے. ہمارا اعتقاد ہے کہ ایک دن آئے گا جب تمام شیعہ فقہا اور دانشوروں کا یہی نظریہ ہو گا. اور ہمارے اہل سنت بھائی بھی دیت کے آدھے ہونے کے قائل ہیں، اگرچہ وہ قصاص کے سلسلے میں مرد اور عورت کو برابر سمجھتے ہیں. توجہ رہنی چاہئے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں، ابھی تک اس نے قانونی شکل اختیار نہیں کی ہے اور ہمارا قانون پر اشکال ہے.
اس جدید طرز فکر کے حامل، شیعہ فقیہ نے اس سوال کے جواب میں کہ: کس حد تک آپ کو اطمینان ہے کہ یہ آپ کا نظریہ کبھی قانون کی صورت اختیار کر سکے گا؟ یوں فرمایا:
اس کا انحصار دوسرے شرائط اور حالات پر ہے، یعنی امام خمینی (قدس سرہ) جیسی کوئی شخصیت پیدا ہونی چاہئے جو بہت زیادہ ملا ہو اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہو اور کسی چیز کے زیر اثر نہ آئے، لیکن موجودہ حالات میں یہ چیز ممکن نہیں ہے.
آپ نے جوان طالب علموں کی، دیت کے جیسے مباحث میں آپ کے جدید نظریات پر توجہ کے بارے میں فرمایا: یہ ان کی علمی استعداد کے تابع ہے، اگر ان میں فکری رشد اور انبساط ہوگا تو اس قسم کے مسائل کو آسانی سے مان لیں گے. آپ نے فرمایا:
عام مسلمان بھی اس کو آسانی سے مانتے ہیں لیکن جو لوگ خشونت کے حامی ہوتے ہیں ان میں فکری استعداد نہیں ہوتی. ہمارا نظریہ ہے کہ اسلام میں کوئی تبعیض نہیں ہے اور سب انسان حقوق کے لحظ سے برابر ہیں، عورت اور مرد، مسلمان اور غیر مسلمان، مشرقی ہو یا مغربی، یہ تمام حقوق کے لحاظ سے، اسلام کی نظر میں برابر ہیں. یعنی کہ سزاؤں میں بھی مسلمان اور غیر مسلم سب برابر ہیں، اگر کوئی مسلمان، غیر مسلم کو قتل کر دے تو اس مسلمان کو اس غیر مسلم فرد کی جگہ ما دیا جائے گا. یوں نہیں ہے کہ کہا جائے کیونکہ قاتل مسلمان ہے تو اس کو سزا نہ دی جائے. خلاصہ یہ کہ اسلام میں زبان اور رنگ کبھی بھی تبعیض کا سبب نہیں تھا اور نہ ہے، لہذا کالا اور گورا و غیرہ ... سب حقوق میں برابر ہیں، مسلمان اور غیر مسلم برابر ہیں.
خواتین کے حقوق سے متعلق صرف دو ایسے مسئلے ہیں جہاں پر ممکن ہے کہ ابتدا میں لگے کہ یہاں تبعیض ہوئی ہے، پہلا مسئلہ ارث کا ہے. جہاں پر ہمارے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ بیٹے کو بیٹی کی نسبت، دو برابر حصہ ملنا چاہئے، لیکن عین حال میں یہاں پر تبعیض نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر بھی بیٹی کو کمتر حصہ نہیں ملا ہے، بلکہ فی الواقع یہاں پر بھی بیٹے کو کمتر حصہ دیا گیا ہے. یعنی کہ مردوں کو شکایت کرنی چاہیے کہ یہاں تبعیض واقع ہوئی ہے، اس کی توضیح اور تفصیل پہلے کئی بار ہم بتا چکے ہیں.
دوسرا مسئلہ طلاق کا ہے. جہاں کہا جاتا ہے کہ اسلام نے طلاق کا حق مرد کے اختیار میں دیا ہوا ہے اور یہ عورت کے حق میں ظلم ہے، حالآنکہ وہاں پر بھی عورت کے حق میں ظلم نہیں ہے. کیونکہ : مرد شادی کرتا ہے اور حق مہر، عورت کو دیتا ہے، جب عورت کو طلاق دینا چاہے اس پر فرض بنتا ہے کہ حق مہر بیوی کو ادا کرے، تا کہ طلاق دے سکے، یہاں پر کوئی مخالفت نہیں ہے کیونکہ مرد حق مہر ادا کرتا ہے اور طلاق دے دیتا ہے.
لیکن اگر کوئی عورت طلاق لینا چاہے، یعنی عورت کو اختیار ہو کہ طلاق لے سکے، تو یہاں پر دو صورتیں فرض کی جا سکتی ہیں، پہلی یہ کہ عورت، مرد سے کہے مجھے طلاق دیدو اور حق مہر بھی میرا ہو. یعنی مجھے حق مہر بھی چاہئے اور مجھے طلاق بھی دیدو. یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں پر مرد پر ظلم ہو رہا ہے.
دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرد سے کہے مجھے حق مہر نہیں چاہئے لیکن طلاق دیدو، یہاں پر ہماری نظر یہ ہے کہ مرد پر واجب ہو جاتا ہے کہ عورت کو طلاق دیدے. اور عورت کو تکلیف اور اذیت نہیں پہنچانی چاہئے. اور اسے یوں نہیں کہنا چاہئے کہ میں طلاق نہیں دیتا، اور اگر کہے گا کہ میں طلاق نہیں دیتا تو یہاں پر عدالت کو چاہئے کہ مرد کی طرف سے اس عورت کو طلاق دیدے. اور ہاں یہاں پر مرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے حق مہر سے کچھ زیادہ رقم دو تا کہ میں طلاق دوں. یہ نظریہ صرف ہمارا نہیں ہے بلکہ دس صدیاں پہلے بھی ہمارے بہت سے فقہاء کا یہی نظریہ تھا. ان باتوں کے پیش نظر طلاق کے سلسلے میں بھی کوئی ظلم نہیں ہوا ہے.
اور ایسی صورت میں جہاں عورت طلاق لینے کے لئے اپنا حق مہر دے دیتی ہے لیکن مرد کو اختیار دیا جائے کہ وہ چاہے تو طلاق نہ دے، ہماری نظر میں ایسی صورت میں عورت پر ظلم ہو رہا ہے، بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے، لیکن ہم اس نظریہ کو نہیں مانتے.
مسائل اور موضوعات کے واضح اور شفاف نہ ہونے کی وجہ سے جو مخرب اور خطرناک نتائج انقلاب پر مرتب ہو رہے ہیں اور اسلام کی منفی تصویر جو پیش کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں آپ نے فرمایا:
البتہ یہ موارد خیانت کے زمرے میں نہیں آتے، کیونکہ خیانت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کام پوری اطلاع اور آگاہی سے کیا جائے، لہذا ہم کہتے ہیں کہ یہ غلطی ہے (نہ کہ خیانت). لیکن اسلام کے چہرے کے لئے مضر ہے، یعنی کہ ہمارے لئے جو ہم اسلامی دانشور اور اہل علم طبقہ ہیں، ہمارے لئے نقصان دہ ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ (ان مسائل کے ہوتے ہوئے) اسلام کی منفی صورت پیش کی جاتی ہے. اور اگر یہ غلطیاں، خیانت کی حد تک پہونچ جائیں تو اسلام کی تاریخ میں سب سے بڑا جرم یہی ہو گا، بالکل اسی طرح کا خطرہ جیسے دہشتگروں سے اسلام کو لاحق ہے. تاريخ: 2003/11/25