دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دين کو عوامفريبي کا وسيلہ نہ بنايا جائے.
تھران يونيورسٹي اور تھران ميڈيکل سائينس کي اسلامي انجمن کي مرکزي کميٹي سے ملاقات کے دوراندين کو عوامفريبي کا وسيلہ نہ بنايا جائے.
حضرت آيت اللہ العظمي صانعي نے تھران يونيورسٹي اور تھران ميڈيکل سائينس کي اسلامي انجمن کي مرکزي کميٹي سے ملاقات کے دوران جو تيرہ آبان کي مناسبت پر جب دانشجويان مسلمان پيرو خط امام کي طرف سے تھران ميں (امريکي) جاسوسي اڈے (سفارت) پر قبضہ کر ليا تھا، فرمايا: دين کو عوامفريبي کا وسيلہ نہ بنايا جائے.
ايرانيوز خبر رساں ايجنسي کي رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات ميں سابقہ حکومت ميں ماحوليات انسٹيٹيوٹ کي سابقہ ڈائرکٹر، ڈاکٹر معصومہ ابتکار بھي طلباء کے ساتھ موجود تھيں. حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اس نکتے پر تأکيد فرماتے ہوئے کہ اميد کو برقرار رکھنا چاہئے اور نا اميدي سے پرہيز کيا جانا چاہئے، فرمايا: ايک ملک ميں ترقي اس وقت آتي ہے جب ملک کے دانشور اور چيدہ افراد درد کو پہچانيں اور اس کا ادراک کريں.
آپ نے 16 آذر کے واقعہ اور ان طلباء کي شہادت کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے جنھوں نے علم اور آگاھي سے نيکسن کے سامنے قيام کيا تھا، فرمايا: آج بھي يونيورسٹي متحرک ہے. اگر بعض اساتيد کے ساتھ برا سلوک کيا جا رہا ہے تو، يہ سب ايک قسم کي علامتيں ہيں. متحجرين اور ايسے لوگ جو نہيں چاہتے کہ عوام کو صحيح آگاہي ملے، انھوں نے اپنے حملوں کا رخ يونيورسٹي کي طرف موڑ ديا ہے اور اساتيد اور يونيورسٹي کي علمي کميٹيوں کو نشانہ بنا رہے ہيں.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے 13 آبان کي مناسبت سے اپني ايک تقرير جو مدرسہ فيضيہ ميں خطاب فرمائي تھي کا يادگار واقعہ سناتے ہوئے، فرمايا: ہم نے اس تقرير ميں کہا تھا، کہ انقلاب کو دو ارکان کي ضرورت تھي، ايک حوزہ اور دوسرا رکن يونيورسٹي. اور الحمد للہ دونوں طرف سے افراد کو خوشي محسوس ہوتي تھي جب وہ حضرت امام خميني کي مدد کيا کرتے تھے. ايک طرف سے جناب مير حسين موسوي کو ايک يونيورسٹي سے متعلق شخص کے عنوان سے يہ شرف حاصل تھا کہ حضرت امام خميني کي خاص توجہ ان پر ہے اور دوسري طرف سے حوزہ علميہ کے بزرگان جيسے آية اللہ مطہري کے فخر تھا کہ حضرت امام خميني کي خدمت ميں ہيں. ہم بھي کچھ عرصہ تک ملک کے سياسي اور عدالتي مناصب ميں رہے ہيں، فخر کرتے تھے کہ حضرت امام خميني کي خدمت ميں حاضر ہيں.
جن لوگوں نے حضرت امام خميني کو ديکھا تک نہيں اور حتي کہ امام خميني پر عقيدہ بھي نہيں رکھتے تھے، آج اپنے آپ کو انقلاب کے مباني اور حضرت امام خميني کے آرزؤں پر اپنے آپ کو فدائي کہلاتے ہيں.
حضرت آيت اللہ العظمي حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي رحلت کے بعد، حضرت علي عليہ السلام کے کم تعداد صحابيوں کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے صراحت سے فرمايا: ديني انقلابوں ميں ايسا ہي ہوتا ہے. کيونکہ عام طور پر ديني انقلاب کسي حد تک انسانوں کي حيواني خواہشات کے بر خلاف ہوتے ہيں لہذا، وہ لوگ جو انسانيت کے مقاصد کو معاشرے ميں نہيں ديکھ سکتے، وہ لوگ ديني انقلابوں کي مخالفت کرتے ہيں.
آپ نے جن طلباء نے آپ سے ملاقات کي، ہر ايک کو ايک قوم کا خطاب ديا اور فرمايا: يہي جو آپ نے اس درد کو محسوس کيا ہے اور يونيورسٹيوں کے درد کا احساس کيا ہے اور يہي جو آپ اپنے راستے کو پہچانتے ہيں، اس کا مطلب يہ ہے کہ اميد رکھني چاہئے اور مأيوس نہيں ہونا چاہئے.
حضرت آية اللہ العظمي نے ايسے لوگ جو مغرب کے خطرہ کو بڑھا چڑھا کر پيش کرتے ہيں ان پر تنقيد کرتے ہوئے، فرمايا: مغرب کا خطرہ اپني عظمت اور جتنے وسائل بھي اس کے اختيار ميں ہيں ان سب کے با وجود اتنا بڑا نہيں بلکہ ايک جواب سے اس کا مقابلہ کيا جا سکتا ہے ليکن اصلي خطرہ يہ ہے کہ دين کو عوام کو کو دھوکہ دہي کا وسيلہ بنايا جائے.
آپ نے فرمايا: دين کو اپنے لئے نہيں چاہنا چاہئے. عوام کو بھي اپنے لئے نہيں چاہنا چاہئے. رياست اور منصب کو عوام فريبي سے حاصل نہيں کرنا چاہئے اور صرف صداقت اور زبان کي صراحت ہي تمام خطرات اور مصيبتوں کو دور کر سکتي ہے.
آپ نے اس بات کي تاکيد کرتے ہوئے کہ ارباب اختيار کو جھوٹ اور عوام کو دھوکہ دينے سے پرہيز کرنا چاہئے، فرمايا: ھمفکر انسانوں کي ارواح ايک دوسرے سے مربوط ہوتي ہيں. انقلاب اور امام خميني کے فرزند بھي ايک دوسرے سے روحاً مربوط ہيں. ہم نے کچھ دن پہلے ايک انٹرويو ميں کہا تھا کہ سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے، اور خاص طور پر ارباب اختيار کا جھوٹ بولنا اور خاص طور پر جھوٹے وعدے.
آية اللہ العظمي صانعي نے آگے فرمايا: صداقت، اسلامي اخلاق کے اصول ميں سے ہے اور گفتار ميں جھوٹ بولنا اور جھوٹے وعدے دينا اخلاقي رذائل ميں سے ہيں.
انہي نکات کو آية اللہ طاہري اصفہاني نے بھي کچھ چيدہ افراد سے ملاقات کے دوران فرمايا ہے اور تأکيد کي ہے کہ امير المؤمنين حضرت امام علي عليہ السلام کا حکومت سے دوري اختيار کرنا بھي مخالفوں کے جھوٹوں کي وجہ سے تھا اور جھوٹي حديث سے حضرت علي عليہ السلام کو ايک طرف کر ديا گيا.
حضرت آية العظمي صانعي نے فرمايا: آج جو آپ يہاں پر تشريف لائے ہيں، سياسي اخلاق کي بات چل پڑي ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ انقلابي اور انقلاب کے دلسوز افراد کي روحيں آپس ميں مرتبط ہيں اور ايک دوسرے کے قريب ہيں.
آپ نے فرمايا: يہ انقلاب کي ترقي اور پيشرفت کي نشانياں ہيں.
حضرت آيت اللہ العظمي صانعي نے تھران يونيورسٹي اور تھران ميڈيکل سائينس کي انجمن اسلامي کي مرکزي کميٹي سے ملاقات کے دوران فرمايا: مذھب کے غلط استعمال کو روکنا چاہئے، جو بھي جھوٹ بولتا ہے يا جھوٹے وعدے ديتا ہے وہ گنہگار ہے اور جو اشخاص ان جھوٹے وعدے دينے والوں کي مدد کرتے ہيں وہ بھي گنہگار ہيں.
آپ نے تصريح فرمائي کہ: ظلم اور ارتجاعي طاقتوں کے سپاہيوں کي کثرت اور وہ لوگ جو يونيورسٹيوں اور حوزہ ھاي علميہ کے استقلال کا خاتمہ چاہتے ہيں، سب گنہگار ہيں.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے مستقل روحانيت کے کردار پر تأکيد ديتے ہوئے فرمايا: ہميشہ مستقل روحانيت شيعيت پر اثرانداز رہي ہے اور اب بھي يوں ہے. ليکن ھر زمانے ميں ايک اصيل روحاني کو آگے آ کر (انقلاب اور حرکت) کي چنگاري لگاني چاہئے. اس زمانے ميں حضرت امام خميني آگے بڑھے اور يہ چنگاري لگائي، ہميشہ ايک چنگاري لگانے والے کي ضرورت ہوتي ہے.
آپ نے فرمايا: علماء کي وہ قلم جس کے بارے ميں کہا گيا ہے کہ شہداء کے خون سے افضل ہے، ايسي قلم ہے جس سے شھيد کي تربيت ہوتي ہے اور وہ بھي واقعي شھيد کي تربيت. وہ (عالم) جو ذھن ميں شہادت کي چنگاري لگاتا ہے، اس کي قلم شہداء کے خون سے افضل ہے.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے ايسے لوگوں پر تنقيد کرتے ہوئے جو لوگوں کو نا آگاہ سمجھتے ہيں، فرمايا: حضرت امام خميني ہميشہ تأکيد فرماتے تھے کہ آج ہماري عوام، حضرت پيغمبر کي امت سے زيادہ آگاہ ہے. عوام بہت آگاہ ہيں. اور جو لوگ، عوام کو نا آگاہ سمجھتے ہيں، وہ بہت غلطي پر ہيں، البتہ اس ميں کوئي شک نہيں کہ اگر غلط پروپگينڈے زيادہ ہو جائيں تو ان کي تأثير ہوتي ہے اور تبليغ کي قدرت سے غافل نہيں رہنا چاہئے.
آپ نے طلباء کو تأکيد کر کے فرمايا کہ انقلاب کي تاريخ کو آپ نے محفوظ کرنا ہے اور جو کچھ آپ کو معلوم ہے اسے دوسروں تک پہنچانا چاہئے. ہر فرد کا فرض بنتا ہے کہ اپني خاندان کو آگاہ کرے. اگر ہمارے ھزار آگاہ طلباء ہوں تو ھزار خاندانوں کو آگاہي دے سکتے ہيں.
آپ نے حضرت امام خميني اور شہداء کے راستے کو پائيدار قرار ديتے ہوئے فرمايا: انقلاب کي تاريخ کو محفوظ کرنا چاہئے. آج انقلاب کي تاريخ ميں تحريف کا خطرہ ہے. جن لوگوں نے حضرت امام خميني کو ديکھا تک نہيں اور حتي کہ امام خميني پر عقيدہ بھي نہيں رکھتے تھے، آج اپنے آپ کو انقلاب کے مباني اور حضرت امام خميني کے آرزؤں پر اپنے آپ کو فدائي کہلاتے ہيں. ہم جو حضرت امام خميني کي خدمت ميں حاضر تھے ابھي يہ دعوي نہيں کر سکتے کہ حضرت امام خميني کو صحيح طور پر سمجھ سکے ہيں.تاريخ: 2006/11/04 ويزيٹس: 5620