دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: کچھ لوگ جب بے بس ہو جاتے ہیں تو حضرت امام خمینی پر بھی رحم نہیں کرتے.
حضرت آیت الله العظمی صانعی:کچھ لوگ جب بے بس ہو جاتے ہیں تو حضرت امام خمینی پر بھی رحم نہیں کرتے.
کچھ لوگ جب بے بس ہو جاتے ہیں تو حضرت امام خمینی پر بھی رحم نہیں کرتے. اور امام خمینی کا نام اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، ظالم لوگوں نے ہی حضرت امام خمینی کی تصویر کی بے حرمتی کی ہے لیکن کہ دیتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے یوں کیا ہے، حالانکہ یہ طالب علم تو امام خمینی کے فدائی ہیں اور اپنی ہر چیز کو امام خمینی کی دین سمجھتے ہیں.
ہم کو ابھی وہ تاریخی واقعات یاد ہیں، آبادان میں سینما رکس کو یا پھر کرمان کی جامع مسجد کو آگ لگانے کے واقعات ابھی ہمیں یاد ہیں کہ کس نے آ کر ان کو آگ لگائی اور پھر کہ دیا کہ یہ تو انقلابی لوگوں کا کام ہے.
آپ نے ”عوامی تنظیم برائے آزادی قدس“ کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین محتشمی پور اور فلسطینی حمایت کے لئے قائم کی گئی طالب علموں کی کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کے دوران فرمایا: ”آج میں جس طرح قدس کی غربت کے لئے رو رہا ہوں، اسی طرح اسلام و تشیع اور حضرت امام خمینی سلام اللہ علیہ کے وفاداروں کی غربت پر بھی رو رہا ہوں“ آپ نے فرمایا: ”حضرت امام خمینی نے فلسطین کے مسئلے میں صحیح طور پر واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل ایک ناسور ہے، لیکن ہمارے عقیدہ یہ ہے کہ جو غربت آج فلسطین کے حصے میں آئی ہے، وہ ایران کے شاہ کے زمانے سے زیادہ ہے کیونکہ اگر شاہ ایران اسرائیل کے ساتھ تعلقات جوڑنا چاہتا تھا تو یہ سب پر واضح و عیان تھا کہ وہ غلطی کر رہا ہے لیکن آج کچھ ایسے مسائل کو پیش کیا جاتا ہے جن کے نتائج کے بارے میں نہیں سوچا جاتا یا کچھ ایسے مسائل کو بڑھا چڑھا کر آگے لا کر پھر ان سے پسپا ہو کر پیچھے ہٹ جانا، ہمارے عزیز قدس اور فلسطین کے مسئلے کے لئے زیادہ نقصان دہ ہے.“
مرجع عالیقدر نے آگے فرمایا: ہم اس وقت اپنی عوام سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے میں ہمارا ساتھ دیں، جب خود اپنے ملک کے اندر انہی عوام پر کسی بھی تشدد کے استعمال سے پرہیز کریں. آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ممکن نہیں کہ سماج کو ایسا چلایا جائے کہ حتی جب شرعی اور قانونی سزائیں بھی دی جائیں تو ان میں اسلامی رحمت و رٲفت نظر آئے.“
حضرت امام خمینی سلام اللہ علیہ کے وفادار شاگرد نے حضرت امام خمینی کی تصویر کے بے حرمتی کے واقعہ پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”کچھ لوگ جب بے بس ہو جاتے ہیں تو حضرت امام خمینی پر بھی رحم نہیں کرتے. اور امام خمینی کا نام اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، ظالم لوگوں نے ہی حضرت امام خمینی کی تصویر کی بے حرمتی کی ہے لیکن کہہ دیتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے یوں کیا ہے، حالانکہ یہ طالب علم تو امام خمینی کے فدائی ہیں اور اپنی ہر چیز کو امام خمینی کی دین سمجھتے ہیں.“
آپ نے مزید فرمایا: ”ہم کو ابھی وہ تاریخی واقعات یاد ہیں، آبادان میں سینما رکس کو یا پھر کرمان کی جامع مسجد کو آگ لگانے کے واقعات ابھی ہمیں یاد ہیں کہ کس نے آ کر ان کو آگ لگائی اور پھر کہ دیا کہ یہ تو انقلابی لوگوں کا کام ہے!“
طالب علموں کے خلاف تشدد کرنے کے واقعات کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”مار پٹائی، تشدد اور جیل میں بھجوانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا، اس کا کیا مطلب ہے کہ کسی اجتماع میں ۷۰۰ طالب علموں (جیسا کہ خود ان کا کہنا ہے) میں سے ۲۰۰ طالب علموں کو گرفتار کر کے جیل میں روانہ کر دیا جائے یا پھر عورتوں پر حملوں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ہمارے ثقافت کب اس کی متحمل تھی کہ عورتوں کو سڑکوں پر مارا پیٹا جائے؟ ہمیں تو انقلاب کے زمانے بھی یاد ہے کہ شاہ ایران کے بعض سپاہی عورتوں پر حملہ کرنے سے کتراتے تھے لیکن اب بعض لوگوں کی تشخیص یہ ہے کہ عورتوں کو بھی مارا پیٹا جائے اور اگر کوئی چھوٹا سا اعتراض بھی کرے تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام اور حضرت امام خمینی کا مخالف ہے.“
آپ نے فرمایا: القاعدہ جیسے بعض تشدد کرنے والے گروہوں کی حرکتوں کی وجہ سے دنیا کے سامنے اسلام کی غلط تصویر پیش ہوئی ہے. آپ نے فرمایا: ”مجھے ڈر ہے کہ اس قسم کے تشدد آمیز اعمال کی وجہ سے کل مذہب تشیع کو بھی تشدد کرنے والا مذہب نہ کہا جائے.“
حضرت آیۃ اللہ صانعی نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے، حضرت امام خمینی کے وفادار ساتھیوں کو انقلاب اور سیاسی و سماجی محفلوں سے دور کر دینے کی وجہ سے فلسطین کے مسئلے پر اثر انداز ہونے کے بارے میں فرمایا: ”آج ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ امام کے ساتھی فلسطین کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، اور اگر کچھ کہہ بھی دیں تو ان کے بات مانی نہیں جاتی لہذا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امام کے ساتھیوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے، بلکہ جتنا بھی دشمن یا وہ لوگ جو قاصر ہیں امام کے ساتھیوں سے دشمنی کرتے ہیں، اتنا ہی ہم کو امام کے دوستوں کی حمایت اور ان سے اظہار محبت کرنے چاہئے، خاص طور پر ایسے امام کے ساتھی جو سماج میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں.“
آپ نے فلسطین کی حمایت کے لئے قائم طالب علموں کی کمیٹی کے مخاطب ہوتے ہوئے یوں فرمایا: ”آپ کو چاہئے کہ ملکی سربراہوں کو اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ اگر فلسطین اور قدس کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اندورنی دباؤ کو کم کرنا ہو گا اور امام کے ساتھیوں اور دوستوں کو دوبارہ واپس پلٹانا ہو گا، ایرانی حکومت کے سربراہوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہو گا کہ قدس کی غربت سے پہلے اسلام اور تشیع کی غربت کی طرف متوجہ ہوں اور بات کرتے وقت اپنے باتوں کے نتائج کے بارے میں بھی اچھی طرح سوچ لیا کریں.“
اس ملاقات کی ابتدا میں جناب حجت الاسلام و المسلمین محتشمی پور نے فلسطین کے موجودہ حالات اور غاصب اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کی سختیوں کی تشریح کرتے ہوئے یوں فرمایا: ”آج کی اسلامی دنیا اور ایران کے حالات کی وجہ سے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین کے بارے میں ایک سوچی سمجھی بے حسی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی غاصب حکومت نے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے.“
انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کی طرف سے ایٹمی توانائی کے مسئلے کے بارے میں اور ایران میں الیکشن کے بعد ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ایران کے خلاف موقف اختیار کرنے کے بارے میں فرمایا: ”افسوس ہے کہ یہی حکومت جو کل تک ہالو کاسٹ کے بارے میں سخت سے سخت ترین موقف اختیار کیے ہوئے تھی آج فلسطین کے مسئلے کے بارے میں چپ سادھ کے بیٹھی ہے.“
اسی طرح طالب علمی کمیٹی کے سربراہ جناب مہدوی صاحب نے بھی حضرت آیۃ اللہ العظمی صانعی سے مخاطب ہو کر یوں اپنے عرائض عرض کیے: ”ہمارے کاموں کی بنیاد مظلوم کا دفاع ہے چاہے وہ فلسطین ہو یا یمن یا افغانستان.“
جناب مہدوی صاحب نے مزید فرمایا: ”حضرت امام خمینی جو فلسطین کے مسئلے پر اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے، اس کے ظالم ہونے کے علاوہ اس کے غاصب ہونے کی وجہ سے تھی، لہذا ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو صرف ایک انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے.“
جناب مہدوی صاحب نے فرمایا: ”اس طالب علمی کمیٹی میں ہماری روش صرف اور صرف علمی دانائی کو آگے لانا ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے بارے میں گفتگو کو معاشرے کی واقعیات پر مبنی ہونا چاہئے.“
تاریخ: 1388/9/20 تاريخ: 2009/12/11 ويزيٹس: 8348