Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بيانات
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت زہرا (س) مظلوميت اور حقيقت سے دفاع کي علامت اور نمونہ ہيں.
آپ کا درس خارج ميں، حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) اور حضرت امام خميني کے ملکوتي ارتحال کي مناسبت سے بيانات حضرت زہرا (س) مظلوميت اور حقيقت سے دفاع کي علامت اور نمونہ ہيں. اسلام کي عزت اور عظمت کا دارومدار حضرت امام خميني کے تفکرات کي حفاظت ميں ہے.
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي:
«حضرت زہرا (س) مظلوميت اور حقيقت سے دفاع کي علامت اور نمونہ ہيں.»
«اسلام کي عزت اور عظمت کا دارومدار حضرت امام خميني کے تفکرات کي حفاظت ميں ہے.»
«تمام يونيورسٹيوں اور ديني علوم کے مدارس کي خدمت ميں عرض کر رہے ہيں کہ اگر ہم يہ چاہتے ہيں کہ اسلام کي عزت اور اس کي عظمت کي پاسباني کريں تو حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے تفکرات کے مباني کو اپني تکيہ گاہ بنانا ہو گا»
حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) کي شہادت کي مناسبت سے، حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے اپنے فقہ کے درس خارج ميں، خاتون جنت کي عظمت اور آپ کي شخصيت کے بارے ميں بہت تفصيلي گفتگو کرتے ہوئے فرمايا: «حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) کے سلسلے ميں ايک نکتہ کي طرف ہميں توجہ کرني چاہئے اور وہ اللہ تعالي اور حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا آپ کي نسبت احترام ہے.»
آپ نے آيہ تطہير اور حديث شريف کساء کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے، ارشاد فرمايا: «حديث کساء ميں جب ارشاد رب العزت ہوتا ہے کہ ميں نے تمام عالم کو ان پانچ ہستيوں کے لئے پيدا کيا ہے اور حضرت جبرئيل (عليہ السلام) جب يہ دريافت کرنا چاہتے ہيں کہ يہ پانچ ہستياں کون ہيں؟ تو اللہ تعالي کي طرف سے جواب ملتا ہے «ھم فاطمہ و ابوھا و بعلھا و بنوھا» يہاں پر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليھا کے نام کو پہلے لا کر دوسروں کا آپ کے ذريعہ تعارف کرايا جا رہا ہے، يہ آپ کي عظمت اور شان کو بيان کرنے کے لئے ہے.»
آپ نے مزيد فرمايا: «قرآن کريم نے بھي حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) کو «کوثر» يعني بہت زيادہ خير و نيکي بلکہ تمام نيکي کے عنوان سے ياد کيا ہے، لہذا معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) کے نام کو اللہ تعالي اور آپ کے حبيب صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور اسلام کے ہاں خاص اہميت حاصل ہے اور فيصلہ يہي تھا اور اب بھي ہے کہ يہ نام باقي رہے گا اور ہم کو بھي توجہ کرني چاہئے کہ اس نام کي حفاظت کريں، کيونکہ حضرت فاطمہ زہرا (عليھا صلوات اللہ و سلامہ) مظلوميت اور حق و حقيقت کا دفاع کرنے کي علامت اور نمونہ ہيں، اسي طرح فداکاري اور صبر کا نمونہ وہ بھي اللہ تعالي کي رضايت حاصل کرنے کے لئے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے جمہوريہ اسلاميہ ايران کے باني حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کي برسي کي مناسبت سے، مشکلات پر غلبہ پانے کے لئے حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے فکري اور فقہي مباني کي طرف توجہ اور ان سے تمسک کرنے کي طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمايا: «ہم تمام يونيورسٹيوں اور معزز اساتيد اور طالب علموں اور اسي طرح ديني علوم کے حوزہ علميہ اور محترم روحانيت کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتے ہيں کہ اگر اپني عزت اور عظمت عزيز ہے اور اگر اسلام اور شيعہ فقہ اور اپني شناخت کي حفاظت کرنا چاہتے ہيں تو، اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہے کہ حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے نظريات کے مباني کو بيان کريں اور انہي مباني کو اپنے لئے تکيہ گاہ بنائيں.»
آپ نے فرمايا: «ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے نام اور آپ کي سوچ کو زندہ رکھيں اور جو شخص بھي اس بات کا دعوي کرتا ہے کہ وہ امام خميني (سلام اللہ عليہ) کا معتقد اور آپ سے ارادت رکھتا ہے، اس کو چاہئے کہ امام خميني کے تفکرات کے مباني کو چاہے فقہ ہو يا دوسرے مسائل ميں بيان کرے اور انہي کو اپنے عمل کا مبنا بنائے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے فرمايا: «کہ بہتر يہي ہو گا کہ ہمارے حوزہ علميہ اور يونيورسٹيوں ميں آخري تھيزز (رسالہ) کو حضرت امام امت (سلام اللہ عليہ) کے مباني کي تشريح ميں تدوين اور تاليف کيا جائے.»
معظم لہ نے اس نکتے کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حضرت امام خميني کي اہل بيت (عليھم السلام) کے ساتھ محبت اور ارادت آپ کے تفکرات کي خاص خصوصيتوں ميں سے ہے، فرمايا: «حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کا فلسفہ کي تقريرات [اسفار جلد نمبر تين] ميں يہ نظريہ ہے حضرت اميرالمٶمنين (عليہ السلام) اور حضرت رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي قابليتوں ميں کوئي فرق نہيں تھا. يعني اگر حضرت ختمي مرتبت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نبي اور خاتم الانبياء بنے ہيں، تو حضرت علي (عليہ السلام) بھي قابليت اور معنوي طاقتوں اور اسي طرح نفساني کمالات کے لحاظ سے اس مقام کو حاصل کرنے کي توانائي رکھتے تھے، اور اگر يہ امر واقع نہيں ہوا ہے تو اس کي وجہ وقت اور زمان کے لحاظ سے حضرت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کا اس مقام کو حاصل کرنے ميں مقدم ہونا ہے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے بيان فرمايا کہ اگر حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) نے فسلفہ کي تقريرات ميں يہ مطالب بيان نہ فرمائے ہوتے تو شايد ہم ميں يہ ہمت نہ تھي کہ ان کو بيان کر سکيں، آپ نے فرمايا: «ايک دن حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کو حوزہ علميہ ميں ان باتوں سے روکا جاتا تھا، ليکن آج، امام خميني کي ہي مجاہدت اور شہداء کي قربانيوں کي وجہ سے اتني آزادي پائي جاتي ہے کہ يہ باتيں بيان کي جا سکيں لہذا آپ کو امام خميني کے ارشادات اور آپ کے مباني کو اصل قرار دے کر ان کے بارے ميں بحث کرني چاہئے.»
امام خميني نے ايسے وقت پر جب ہر چيز اور تمام شرائط اور مرجعيت اور اسي طرح پيروکار، احترام، پيسہ اور دولت اور سلام و صلوات، يہ تمام فراہم تھے اس کے با وجود آپ نے اسلام کا دفاع فرمايا

آپ نے يہ بيان کرتے ہوئے کہ امام خميني کے فکري مباني راہ گشا اور مشکلات کا حل ہيں، يوں فرمايا: «ديکھئے حضرت امام خميني کون سا اسلام متعارف کرانا چاہتے تھے، ديکھئے حضرت امام کا اسلام حدود اور امور عرضيہ کے سلسلے ميں کيا نظريہ ہے؟ آپ نے سنہ ۵۸ ھ.ش ميں تجريش کے علماء سے ملاقات کے دوران فرمايا تھا: «مثال کے طور پر زنا کو فرض کيجئے کہ چار عادل گواہ اس بات کي گواہي ديتے ہيں کہ ہم نے خاص حالت ميں يہ زنا ہوتے ہوئے ديکھا ہے. يہ بات کيسے محقق ہو سکتي ہے؟ اور اگر اس نے خود اقرار کيا ہو تو يہ اقرار چار دفعہ ہونا چاہئے اور وہ بھي اس طرح سے کہ قاضي اس کو نصيحت کرے کہ اگر اقرار کر ليا تو تم پر حد جاري کي جائے گي، شايد تمھيں غلط فہمي ہو رہي ہے، ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ، شارع مقدس کا ارادہ يہ ہے کہ اس قسم کے مسائل بالکل پيش ہي نہ آئيں.»
اگر ہم يوں ہي عمل کريں تو بہت کم ايسے افراد ہونگے جن کے لئے يہ جرم ثابت ہو سکے اور اس قسم کي مشکلات بھي پيش نہيں آئيں گي.
فقيہ عاليقدر نے حضرت امام جعفر صادق (عليہ السلام) کے اس بيان کي طرف اشارہ فرمايا جہاں پر آپ فرماتے ہيں کہ «اگر لوگوں کو ہماري کلام کي خوبيوں کا علم ہو جاتا تو سب ہمارے طرفدار بن جاتے»، آپ نے فرمايا: «حضرت امام خميني ہميشہ فرماتے تھے کہ اسلام کو ايسے متعارف کرانا چاہئے کہ اس کا چہرہ بدنما نظر نہ آئے اور اگر ايسي توانائي اور وسائل ہوتے کہ ہم اپنے سيدنا الاستاد حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) سے سيکھنے والے اسلام کو صحيح طور پر دنيا پر واضح کر سکتے تو اميد کي جا سکتي تھي کہ پوري دنيا ہي مسلمان بن جائے.»
آپ نے مزيد فرمايا کہ امام خميني کے نام اور آپ کے تفکرات کي حفاظت کرنے کا ايک اور طريقہ يہي ہے کہ آپ کے نام کي تعظيم کي جائے اور اس کو بلند سمجھا جائے. آپ نے فرمايا: «بہتر يہي ہے کہ جب بھي حضرت امام خميني کا نام ليتے ہيں اس کے ساتھ (سلام اللہ عليہ) بھي لگايا جائے (اگرچہ پہلے جب بھي ہم ايسا کرتے ہم پر اعتراض کيے جاتے تھے) جيسا کہ حضرت امام صادق (عليہ السلام) زرارہ جيسے اپنے شاگردوں کا نام ليتے وقت، اس کے ساتھ «صلوات اللہ عليہ» کا ذکر فرماتے تھے.»
آپ نے مزيد فرمايا: «دوسرا طريقہ يہي ہے کہ جب امام خميني (سلام اللہ عليہ) کا نام سنا جائے، تين مرتبہ درود بھيجا جائے. ہماري يہي آپ کو يہي نصيحت ہے کہ اس روش کي حفاظت کي جائے، کيونکہ اس درود بھيجنے کي قيمت ميں بہت افراد مارے گئے، شہيد ہوئے، اور بہت افراد نے کوڑے کھائے اور بہت افراد نے قيد کي سلاخيں ديکھيں.»
معظم لہ نے فرمايا: «آٹھويں پارليمنٹ کے آغاز پر افتتاحي اجلاس ميں جب حضرت امام خميني کا نام ليا گيا تو، پارليمنٹ کے اراکين حفظھم اللہ نے مل کر تين مرتبہ درود بھيجا جو امام خميني کے ساتھ ان کي محبت اور لگاٶ کي نشاني تھي اور اس طرح اپنے فرض نبھايا، اور ہم نے اسي وقت دعا کے لئے ہاتھ بلند کيے اور اللہ تعالي کا شکريہ ادا کيا کہ امام خميني کے لئے اس قسم کي محبت اور لگاٶ عوامي نمائندوں کے دلوں ميں ہے.»
آپ نے اپنے بيانات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمايا: «حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) نے اسلام کي حفاظت کے ليے، اپني ہر چيز فدا کر دي» آپ نے فرمايا: «آج ہم اسلام کي حفاظت کے لئے اپنے مفاد سے دستبردار نہيں ہوتے، حتي کہ اپني ايک کتاب سے، اپني ايک تقرير سے، اور يہ انساني خصلتوں ميں سے ہے. اس کا مطلب يہ نہيں افراد ميں برائي ہو بلکہ صبر اور ايثار کے لئے ايسا درجہ چاہئے جس کے بارے ميں ہمارے عقيدہ يہ ہے کہ حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے بعد صرف شہداء اور آپ کے خاص دوستوں ميں يہ خصلت پائي جاتي تھي اور جو لوگ آج بھي امام خميني کے حقيقي راستہ کو آگے بڑھا رہے ان ميں بھي يہ خصلت موجود ہے.»
امام خميني کے اس مبرز شاگرد نے فرمايا: «امام خميني نے ايسے وقت پر جب ہر چيز اور تمام شرائط اور مرجعيت اور اسي طرح پيروکار، احترام، پيسہ اور دولت اور سلام و صلوات، يہ تمام فراہم تھے اس کے با وجود آپ نے اسلام کا دفاع فرمايا، حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ اس کي قيمت بہت مہنگي پڑے گي. کيپٹاليشن کے وقت حضرت امام خميني کو معلوم تھا اس سلسلے ميں بات کرتے ہي آپ پر مشکلات ٹوٹ سکتي ہيں اور حکومت کوئي بھي قدم اٹھا سکتي ہے، ليکن اسلام کي خاطر حضرت امام خميني نے وہ تقرير کي جس کے نتيجہ ميں امام کہ جلاوطن کر ديا گيا.»
آپ نے فرمايا: «امام خميني نے اپني ہر چيز اسلام پر قربان کر دي تھي، اور بات يہاں تک جا پہونچي کہ حضرت امام کو شرعي وجوہات دينا، جرم سمجھا جاتا تھا، کسي کو يہ جرات نہ ہوتي کہ امام خميني کا نام تک زبان لے آئے، حکومت کي طرف سے امام خميني کے خلاف تبليغات اپنے عروج کو پہونچ چکي تھيں، اور يہ جو حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) نے ہمارے بھائي، حضرت آيت اللہ حاج شيخ حسن صانعي جو حضرت امام خميني کے مقلدين سے ان کي شرعي وجوہات وصول فرماتے تھے، يوں فرمايا ہے کہ: «ايسے مواقع کم نہ تھے جب ان پندرہ سالوں کے دوران آپ مخير حضرات کے پيسوں کي رسيدوں کو گوارا کھانے کي طرح چبا کر نگل جاتے، اللہ تعالي کے ہاں اس کي پاداش بھي آپ کو مبارک ہو، يہ بات اس زمانے کي شدت کو بيان کرتي ہے.»
حضرت آيۃ اللہ العظمي صانعي نے مزيد فرمايا: «حضرت امام خميني کو شرعي وجوہات نہ دينے کي جڑ شيطاني افکار ميں ہے جو مشرکين نے بھي حضرت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے لئے يہي سوچا تھا. وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ (ص) کو پيسہ نہيں ملنا چاہئے تا کہ ان کے خام خيالوں ميں لوگ پيامبر کو چھوڑ جائيں گے. يہ سوچ ايک نجس اور شيطاني سوچ ہے اور وہ لوگ جو آج يہ تبليغ کرتے ہيں کہ حوزہ علميہ کو پيسہ نہيں ملنا چاہئے، وہ نادانستہ طور پر غلط راستے پر چل پڑے ہيں کيونکہ پورے حوزہ علميہ کا قوام انہيں وجوہات پر ہے، اور اگر عوام اپني شرعي وجوہات کو حوزہ علميہ کے لئے ديتے ہيں تو يہ اللہ تعالي کے احکام کو استنباط کرنے اور ان کو سمجھنے اور شيعہ فقہ کو زندہ رکھنے کے لئے ہے.»
آپ نے حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف سے فدک کو حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ عليھا) کو بخش دينے اور حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے گذر جانے کے بعد فدک کو استعمال کرنے سے روکے جانے کے بارے ميں فرمايا: «يہ بھي اسي شيطاني سوچ کا نتيجہ تھي» آپ نے فرمايا: «يہ سياست پوري تاريخ ميں نظر آتي ہے چاہے حضرت اميرالمٶمنين (عليہ السلام) کا زمانہ ہو يا پھر کسي بھي ائمہ معصومين (عليھم السلام) کا زمانہ اور اسي سياست کو طاغوتي حکومت نے حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے لئے کے خلاف استعمال کيا.»
تاريخ: 2008/05/31
ويزيٹس: 8473





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org