دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: حضرت امام زمانہ (عج) کے نام کو غلط مقاصد کے لئے استعمال کرنا بہت بڑا گناہ ہے.
آپ کي امريکہ کے ABC NEWS نيوز نيٹ ورک سے گفتگوحضرت امام زمانہ (عج) کے نام کو غلط مقاصد کے لئے استعمال کرنا بہت بڑا گناہ ہے.
رپورٹيں مل رہي ہيں کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے مہدويت اور حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کے ظہور کے بارے ميں کچھ انحرافي، بے پايہ اور بے بنياد افکار کو دوبارہ پھيلانے کے لئے زمينہ سازي کي کوششيں ہو رہي ہيں. مرجع تقليد حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے صريح بيانات ميں فرمايا: «اگر اقتدار ميں رہنے والے يا ان کے علاوہ کوئي بھي، حضرت امام مہدي عج اللہ تعالي فرجہ الشريف کے نام سے چھوٹا سا سوء استفادہ کرنا چاہيں تو يہ گناہ ہے اور جہان کے مصلح (روحي و ارواح العالمين لتراب مقدمہ الفداء) کے اہداف و مقاصد سے خيانت ہے.
آپ جو ABC News نيوز نيٹ ورک کے رپورٹروں سے بات چيت فرما رہے تھے، ايک رپورٹر کے جواب ميں جس نے پوچھا کہ «يہ بات واقعيت کے کتنے قريب ہے کہ ہم کو حکومتي سياستوں کے ذريعہ ايسے اقدامات کرنے چاہيں جو حضرت امام زمانہ کے ظہور ميں تعجيل ہو اور اصولاً کيا امام زمانہ کے ظہور کے لئے کوئي وقت مقرر ہے يا نہيں؟»، آپ نے فرمايا: «امام زمانہ (ارواحنا لتراب مقدمہ الفداء) کے ظہور کے لئے کوئي خاص وقت مقرر نہيں ہے اور کسي کو يہ حق نہيں کہ اس قسم کے دعوے کرے، اور اگر کسي نے ايسے دعوے کيے تو بھي ان کو جھٹلانا چاہئے».
آپ نے فرمايا: «دنيا کے تمام انسانوں کو عدالت اور صلح کا خواہشمند ہونا چاہئے تا کہ آپ تشريف لائيں. اس کا مطلب ہے کہ ذہني طور پر يہ زمينہ فراہم ہونا چاہئے، تا کہ جب آپ تشريف لائيں تو کوئي مخالفت نہ ہو، اور يہ بات تمام اقوام سے وابستہ ہے، اور آپ نے نام کا غلط استعمال، امام سے اور ايسي عدالت سے خيانت ہے جس کا وعدہ امام عليہ السلام نے ديا ہے».
آپ نے اسي سلسلے ميں فرمايا: «اس کي مثال حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کي تحريک ہے. امام خميني ايک بہت عظيم روحاني تھے، فقاہت اور اسي طرح انقلاب اور سياست ميں بھي بہت عظيم انسان تھے، ليکن آپ نے کبھي اپني تحريک کو آگے بڑھانے کے لئے امام زمانہ عج اللہ تعالي فرجہ الشريف کے نام کو ابزاري طور پر استعمال نہيں کيا. آپ نے کبھي اپنے مبارزات ميں اسلحہ کا استعمال نہيں کيا اور آج بھي اگر کوئ امام کے رستے سے ہٹ کر چلنے کي کوشش کرے تو اس کے بارے ميں ہم يہ کہنا چاہيں گے کہ يہ امام (سلام اللہ عليہ) کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف ہے جس کو لوگ بہت اچھے طريقے سے جانتے ہيں».
حوزہ علميہ کے اس نوانديش فقيہ نے فرمايا: «اصولي طور پر اگر اقتدار ميں رہنے والے لوگ دين کو ابزار اور وسيلے کے طور پر استعمال کرنا چاہيں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سونپے گئے وظائف کي صحيح طور پر انجام دہي پر قادر نہيں ہے اور چاہتے ہيں کہ دين کے ذريعہ اپنے آپ کو لوگوں ميں محبوب دکھائيں اور يہ ديني اعتقادات سے خيانت ہے».
اس گفتگو کے ضمن ميں امريکہ کے ABC News نيٹ ورک کے رپورٹر نے ايران کي ايٹمي توانائي اور ايٹمي اسلحہ کے حصول کے بارے ميں بات کرتے ہوئے آپ سے پوچھا: «يہ بدگماني پائي جاتي ہے کہ ايران ايٹمي اسلحہ کے حصول کے لئے کوشاں ہے، انساني حقوق کے تناظر ميں ايٹمي اسلحہ رکھنے کے بارے ميں آپ کا کيا نظريہ ہے»؟
حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کے بارز شاگرد نے جواب ميں فرمايا: «يہ واضح ہے کہ کوئي بھي ايٹمي اسلحہ رکھنے کے در پي نہيں ہے، اور اس بارے ميں سب سے بہترين جملہ حضرت امام خميني سلام اللہ عليہ نے ارشاد فرمايا تھا کہ «تمام اسلحوں کو قلم ميں بدلنا چاہئے» اس کا مطلب يہ ہے کہ تمام مسائل کو منطق اور گفتگو سے حل کرنا چاہئے».
آپ نے اس امريکي رپورٹر کے ايک دوسرے سوال کے جواب ميں جس نے پوچھا کہ: «آپ کا مطلب يہ ہے کہ ايران کے پاس بالکل ايٹمي اسلحہ نہيں ہونا چاہئے؟» يوں ارشاد فرمايا:«نہ صرف ايران بلکہ دنيا ميں کہيں بھي ايٹمي اسلحہ نہيں ہونا چاہئے، بلکہ بني نوع انسان کے ہاتھ ميں بالکل اسلحہ نہيں ہونا چاہئے. ہم اس دن کي اميد رکھتے ہيں کہ جب تمام اسلحے، صلاح اور شائستگي ميں بدل جائيں گے اور ہمارے مذہبي اعتقادات کے مطابق وہ دن، شيعوں کے بارھويں امام حضرت امام مہدي منتظر (عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف) کے آنے سے محقق ہو گا. اور حضرت عيسي مسيح (علي نبينا و آلہ و عليہ السلام) بھي دوسرے تمام انبياء عظام جو صلح کے منادي ہيں، تمام انسانيت کو صلاح و نيکي کي طرف دعوت دينے کے لئے، زمين پر ھبوط کرنے کے بعد، حضرت امام زمانہ عليہ السلام کي اقتدا کريں گے.
آپ نے فرمايا: «اقوام متحدہ کي بنياد ڈالنا اور اس کا منشور، بين الاقوامي عدالتوں کي تشکيل اور جنگي مجرموں کا محاکمہ، اسلام اور مسيحيت اور دوسرے تمام اديان کے اکابرين کي آپس ميں ہماہنگي اور يکسانيت، اور يہ کہ بني نوع انسان، فطري طور پر جنگ سے متنفر ہے، يہ سب نشانياں ہيں اس بات کي کہ ايک دن صلح اور رأفت کي پورے جہان پر حاکميت ہو گي.
اس ٤٥ منٹ کي ملاقات کا آخري حصہ بھي اس امريکي رپورٹر کے انقلاب کے ايام ميں امريکي سفارت خانے پر ايراني سٹوڈنٹس کے قبضے اور ايران امريکہ رابطے کے موضوع پر ختم ہوا. اس نے آپ سے پوچھا کہ «امريکہ کي سفارت پر قبضہ اور وہاں کے عملے کو يرغمال بنانے کے بارے ميں آپ کا کيا نظريہ ہے؟ اور اس وقت آپ کے کيا جذبات تھے؟»
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے جواب ميں فرمايا: «جب حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) نے ان شرائط ميں اس عمل کو صحيح قرار ديا تھا تو ہماري نظر بھي امام خميني کي تابع تھي».
آپ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمايا: «جب امريکہ نے ہمارے ملک کے امور ميں اتني دخالت کرني شروع کر دي کہ «کيپٹوليشن» جيسے قانون پاس کروا لئے يعني کہ اپنے لئے ايران کے قانون سے بالادستي اور مصونيت حاصل کر لي، حالانکہ ہمارے بہت سے عزيز تھے جو شاہ ايران کي جيلوں ميں شہيد ہو رہے تھے، اور سياسي قيديوں سے جيليں بھري پڑي تھيں، اور طويل الميعاد قيديوں کو قسم و قسم کے جسماني اور روحي شکنجے ديے جا رہے تھے، ليکن اس وقت امريکيوں نے کوئي بھي عکس العمل نہ دکھايا تھا، تو يہ طبيعي ہے کہ جب سفارت پر جاسوسي کے اڈے کے طور پر قبضہ کيا جاتا ہے تو، لوگ خوش ہوں گے، کيونکہ وہ لوگ اس دن کي امريکي حکومت کے کارندے مانے جاتے تھے».
آپ نے آخر ميں فرمايا: «ليکن غلطي يہ ہو گي کہ اس دن کے شرائط کا آج کل کے شرائط سے موازنہ کيا جائے، اور اب اگر حکومتيں آپس ميں بات چيت کرنا چاہيں تو ايک دوسرے کي حسن نيت پر اعتماد حاصل کرنے کے بعد ہي مشکلات کے حل کے لئے مذاکرات کي ميز پر بيٹھنا چاہئے».