دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: يہ ہمارا عقيدہ ہے کہ ايک دن ايسا آئے گا جب انسانوں ميں دوگانگي اور چند گانگي ختم ہو جائے گي
آپ کي اسپين کي سرکاري ٹي وي کے چينل نمبر 6 سے بات چيتيہ ہمارا عقيدہ ہے کہ ايک دن ايسا آئے گا جب انسانوں ميں دوگانگي اور چند گانگي ختم ہو جائے گي
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے اسپين ٹي وي کے چينل 6 سے بات چيت کرتے ہوئے فرمايا: «انسانوں کي وحدت کے بارے ميں اللہ تعالي نے ہميں قرآن ميں وعدہ ديا ہے اور يہ ہمارا عقيدہ ہے کہ ايک دن ايسا آئے گا جب انسانوں ميں دوگانگي اور چند گانگي ختم ہو جائے گي».
آپ نے اس نکتے کي طرف دھيان دلاتے ہوئے کہ اس وحدت تک پہونچنے کے لئے ايک راستہ يہي ہے کہ مختلف تہذيبوں کا آپس ميں تبادلہ خيال ہو، يوں فرمايا:«روشن خيال اور اسلام شناس افراد جو مختلف انساني معاشروں کو بھي پہچانتے ہيں اور اسلام سے بھي آگاہي رکھتے ہيں، کو چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے دانشوروں سے بيٹھ کر انسانيت کے مشترکات کے بارے ميں گفتگو کرني چاہئے. اور ہميں اميد ہے کہ مختلف تہذيبوں کے درميان تبادلہ خيال اس حد تک پہونچ جائے کہ کہيں پر بھي جنگ و دہشت گردي کي کوئي بات نہ ہو اور تمام مسائل مذاکرات کے ذريعے حل کيے جائيں اور حضرت امام خميني (سلام اللہ عليہ) کي فرمائش کے مطابق، تمام اسلحے، قلم کي صورت بن جائيں اور تمام مسائل کلام اور لکھنے سے حل کئے جائيں»
آية اللہ العظمي صانعي نے صحافت سے وابستہ افراد کي، انساني معاشروں کي مشکلات کو مسالمت آميز طريقوں سے بياں کرنے کے لئے، ان کي تعريف کرتے ہوئے فرمايا: «بہت افسوس کي بات ہے کہ صحافيوں کو جو انساني معاشروں کي مشکلات اور ان کے مسائل کو بيان کرنے کا فرض نبھا رہے ہيں، ان کو ظلم کا نشانہ بنايا جاتا ہے اور اذيت پہنچائي جاتي ہے.»
آپ نے فرمايا: «صحافي اور ميڈيا اگر اپنے فرائض پر صحيح عمل کريں گے جو ايسا کر بھي رہے ہيں، تو يہ سب سے بہتر انسان ہو نگے؛ کيونکہ زبان اور قلم سے مشکلات کو دوسروں پر واضح کر رہے ہيں تا دوسرے لوگ ان کے حل کے لئے کوئي راہ حل ڈھونڈيں؛ ليکن ديکھتے ہيں کہ جنگوں ميں يہي صحافي اور رپورٹر حضرات کو بہت سے صدمات اٹھانے پڑتے ہيں.»
آپ نے اپنے بيانات کے دوسرے حصے ميں ايران ميں دين اور سياست کے درميان رابطے کے بارے ميں فرمايا: «اسلامي جمہوريہ ايران ميں آئين کي رو سے، اسلامي معياروں کے مطابق حکومت عوام کے ہاتھ ميں دي گئي ہے. اور نہ صرف مکمل طور پر جمہوريت موجود ہے، بلکہ خود دينداري بھي عوام کے حقوق ميں سے ايک حق ہے.»
آپ نے فرمايا: «نظرياتي طور پر اور ملک کے آئين کے مطابق، دين اور سياست کے اکٹھ ميں کوئي مضائقہ حرج نہيں ہے، اور اگر کہيں پر کوئي مشکل نظر آتي ہے، تو وہ ان قوانين کو نافذ کرنے ميں ہے نہ يہ کہ آئين يا اسلام ميں کوئي نقص ہو. اور قوانين کو نافذ کرنے ميں موجود مشکلات دينا کي ہر جگہ پر موجود ہيں.»
آپ نے سنگسار، طلاق يا ارث جيسے موارد ميں خواتين کے حقوق کي پامالي کے بارے ميں ايک سوال کے جواب ميں يوں ارشاد فرمايا : «خواتين کے حقوق کي پامالي کا قصہ کوئي نيا نہيں بلکہ يہ تو بہت پرانے زمانوں سے چلتا آ رہا ہے. مدني قوانين ميں بھي ايسا ہي ہے، جس کي بنيادي وجہ سماج کي پراني سوچ ہے، جس کے بارے ميں ہماري نظر يہ ہے کہ ان قوانين کو آج کے روشن خيال معاشرے کے مطابق تدوين اور ان کي اصلاح ہوني چاہئے.»
آپ نے رجم يعني سنگسار کرنے کي سزا کے بارے ميں فرمايا: «پہلے تو يہ معلوم ہونا چاہئے کہ رجم کي سزا صرف خواتين کے لئے نہيں ہے اور مردوں کو بھي سنگسار کيا جاتا ہے. ليکن اس سلسلے ميں دو باتوں کي طرف دھيان رکھنا بہت ضروري ہے؛ پہلي بات يہ کہ اسلامي فقہ ميں ايک نظريے کے مطابق سزائيں صرف اور صرف اس وقت دي جا سکتي ہيں جب امام معصوم عليہ السلام کے حضور کا زمانہ ہو. (يعني اب زمانہ غيبت ميں سزائيں نہيں ديني چاہئيں) اور دوسري بات يہ کہ کسي فرد کے لئے سنگسار کي سزا مقرر کرتے ہوئے بہت توجہ کرني ہو گي، کيونکہ اسلام ميں، اس سزا کو معين کرنے کے لئے کبھي بھي شرائط فراہم نہيں ہو سکتے. کيونکہ يا تو ملزم اتنا بے حياء ہو چکا ہو گا جو اس کو گناہ کرتے وقت سب لوگ ديکھ سکتے ہوں تب بھي وہ اس کام کو کرتا ہے، يا يہ کہ چار شخص بالکل ايک جيسے اس کے خلاف گواہي ديں اور حتي کہ اگر گواہي دينے والے افراد تين ہوں يا چار آدميوں کي گواہي ميں کوئي فرق ہوں تو، قانون کے مطابق ان گواہوں کو سزا ملے گي. يا دوسري صورت يہ ہے کہ خود خطا کار فرد اپنے ديني اور قومي ضمير کي بنياد پر آ کر اپنے جرم کا چار مرتبہ اقرار کرے جو عام طور پر بہت کم لوگ بلکہ کوئي فرد بھي ايسا کرنے کو تيار نہيں ہوتا، اس کے علاوہ اگر اس شخص نے چار مرتبہ اقرار کر بھي ليا تو قاضي کو يہ اختيار ہوتا ہے کہ اس فرد کو معاف کر دے.»
اس فقيہ عالي قدر نے باقي تمام موارد کا ذکر کرتے ہوئے، من جملہ ان ميں سے يہ کہ طلاق کا حق صرف مرد کے لئے مختص نہيں ہے اور اسي طرح ديت اور ارث سے متعلق بحثوں کے بارے ميں گفتگو کرتے ہوئے فرمايا: «آپ نے ملاحظہ فرمايا ليا کہ جہاں تک ہم نے اسلام کو سمجھا ہے اس ميں کوئي نقص نہيں ہے بلکہ يہ ہمارے بنائے ہوئے موجودہ قانون ہيں جن ميں خامياں ہيں.»
اس ملاقات کے اختتام پر اسپين کي سرکاري ٹي وي کے چينل 6 کي رپورٹر صحافي نے يہ جملہ کہتے ہوئے کہ «ميں آپ کي منطق سے مطمئن ہو گئي ہوں» حضرت آية اللہ العظمي صانعي سے مخاطب ہوئيں کہ: «ميں سمجھتي ہوں کہ اگر آپ اور آپ جيسے دوسرے حضرات، مغرب اور وہاں کي علمي محافل ميں شريک ہوتے تو، اسلام کے بارے، مغرب کي نظر تبديل ہو جاتي.»تاريخ: 2007/05/03 ويزيٹس: 10593