Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: مسئلہ کيا ہے؟

مسئلہ کيا ہے؟ اسلام ميں ربا کو حرام قرار ديا گيا ہے جس پر قرآن کريم اور معصومين عليھم السلام کي بہت ساري روايات دلالت کرتي ہيں. اور اس کي حرمت، فقھاء کے نزديک دين کي بنيادي چيزوں ميں شمار ہوتا ہے. جس طرح صاحب جواہر نے اس کي تصريح فرمائي ہے.[1]
ربا، گذشتہ اديان جيسا کہ يھود اور عيسائيت ميں بھي حرام قرار ديا تھا. [2] اگرچہ اس مسئلہ ميں ان دو دينون ميں کچھ فرق پائے جاتے ہيں.
ربا لغت ميں، جس طرح کہ مقاييس اللغہ ميں آيا ہے، زيادت کے معني ميں ہے.[3] لسان العرب ميں اس طرح بيان کيا گيا ہے. «ربي أي زاد و نما» [4] ربا کا معني بڑھاؤ اور زيادت ہے.
اس ميں کوئي شک نہيں کہ جس طرح لغوي معني کي اقتضاء ہے ايسے ہر زيادت کو حرام نہيں کہا جا سکتا بلکہ يقيناً بعض شرائط کي بنا پر يہ زيادت حرام ہو جاتي ہے. مثال کے طور پر زيادہ بولنا، زيادہ عطا کرنا، زيادہ علم حاصل کرنا کبھي بھي حرام نہيں ہيں. بلکہ قرآن کريم اور روايات کي رو سے بہت سي ايسي اضافات اور زيادت ہيں جو بہت مطلوب اور پسنديدہ ہيں. اللہ تعالي قرآن کريم ميں ارشاد فرماتا ہے:
«و ما أتيتم من رباً ليربوا في اموال الناس فلا يربو عند اللہ و ما أتيتم من زکوة تريدون وجہ اللہ فأوليک ھم المضعفون»[5] اور وہ چيزيں جو ربا (کي نيت سے) ديتے ہو تا کہ لوگوں کے مال ميں اس سے زيادت اور سود واقع ہو، وہ اللہ تعالي کے نزديک نہيں بڑھتيں، (ليکن) وہ چيز جو تم زکات کے طور پر (اور اللہ تعالي کي خشنودي حاصل کرنے کي غرض سے) ديتے ہو وہ چيزيں کئي برابر ہو جائينگي.
اس آيت کا معني يہ ہے کہ اگر کوئي انفاق اور بخشش کرنے ميں يہ نيت رکھتا ہو کہ اس کے کئي گنا زيادہ واپس لوں گا، تو يہ نيت رکھنا اللہ تعالي کے نزديک کسي زيادت اور بڑھاوے کا باعث نہيں ہے. ليکن اگر بخشش اور انفاق کرنے سے اس کي نيت اللہ تعالي سے قربت حاصل کرنا ہو تو يہ عمل اللہ تعالي کے نزديک کئي برابر اجر اور ثواب کا موجب بنے گا.
ہر زيادت مطلق طور پر حرام نہيں ہے. اس آيت ميں صراحت سے ربا کا لفظ استعمال کيا گيا ہے اور اس کا غير حرام مورد ميں استعمال کيا گيا ہے.
اسي طرح روايات ميں بھي ربا کو مطلقاً زيادت کے معني ميں استعمال کيا گيا ہے. ابراھيم بن عمر يماني حضرت امام صادق عليہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمايا:
«الرباء ربائان: رباء يوکل و ربا لا يؤکل، فاما الذي يؤکل فھديتک الي الرجل تطلب منہ افضل منھا، فذلک الربا الذي يؤکل، و ھو قول اللہ «و ما اتيتم من ربا ليربوا في اموال الناس فلا يربوا عنداللہ» و اما الذي لا يوکل فھو الذي نھي اللہ عنہ و اوعد عليہ النار»[6]
ربا کي دو قسميں ہيں، ايک وہ ربا جو کھايا جاتا ہے (اور دنياوي سود ہے) اور دوسرا ربا وہ ہے جو نہيں کھايا جاتا (اور ظاہري طور پر دنياوي سود نہيں ہے). وہ ربا جو کھايا جاتا ہے وہ وہي ہے جو تم کسي کو کچھ دے کر توقع رکھتے ہو کہ اس سے بہتر تمھيں واپس ملے. يہ وہ ربا ہے جو کھايا جاتا ہے اور يہ وہي ربا ہے جو اللہ تعالي نے اپني آيت ميں اس کے بارے ميں فرمايا ہے. اور وہ ربا جو نہيں کھايا جاتا وہ وہي ہے جس کے بارے ميں اللہ تعالي نے منع فرمايا ہے اور اس کے بارے ميں جھنم کي آگ کا وعدہ ديا ہے.
فقھاء نے بھي اسي نکتے پر تاکيد فرمائي ہے. جواہر الکلام کے مؤلف لکھتے ہيں: «حرام ربا کا مطلب ہر وہ زيادت نہيں جس پر ربا کي لغت دلالت کرتي ہو». [7]
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . ديکھيئے جواہر الکلام، ج 23، ص 332
[2] . ديکھيئے انجيل، سِفر پيدايش، ش 25، سِفر لاوان، ش 35-37، سِفر تثنيہ، ش 19، سِفر حزقيل، ش 4-9، انجيل متي، ش 17-26.
[3] . مقاييس اللغہ ج 2، ص 483
[4] . لسان العرب ج 5، ص 127
[5] . سورة روم، آيت 39
[6] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 125-126 (ابواب الربا، باب 3، حديث 1)
[7] . جواہر الکلام، ج 23، ص 334
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org