Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: پيش لفظ

پيش لفظ اسلامي فقہ کي شادابي اور اس کي طراوت سب قرآن و سنت کي دين ہے، اس کي ھزار سالہ زندگي مجتھدين اور فقہاء کي مرہون منت ہے. اس طويل عرصے ميں نہ صرف مسلمانوں کي زندگي ميں بہت تأثيرات چھوڑي ہيں بلکہ جب دوسرے مکتب ھاي حقوق نے اس کو قريب سے مطالعہ کيا ہے، ان کي تعجب کي انتھاء نہ رہي.
فقہ کي حيات اور اس کي طراوت، زندہ اور جاري اور اسي طرح فقہاء کي واقعيت سے آگاھي سے منسلک ہے. اگر فقہاء اجتھاد کر کے اخباري جمود سے باہر نکليں يعني اپني تمام تر توانائياں صرف کريں اور صرف چند ايک روائي اور فقہي منابع پر اکتفاء نہ کريں جو في الواقع بھي اصيل اور حقيقي فقہاء کا يہي وطيرہ رہا ہے بلکہ اگر ايک طرف سے اس فقہ کي ايک ھزار سالہ تاريخ کا مطالعہ کريں اور دوسري طرف سے اس ميں رونما ہونے والے تمام تحولات اور اونچ نيچ کے با وجود انسانوں کي زندگي ميں حاضر ناظر سمجھيں تو آئے دن اسلامي-شيعي فقہ کے غنا اور اس کے نشو و نما ميں اضافہ ہوتا جائے گا.
فقہاء کا ضروريات کو مد نظر رکھنا، اجتھاد ميں مؤثر مہارتوں کا صحيح استعمال کرنا، اس نکتے کي طرف متوجہ رہنا کہ گذشتہ فقہاء کي شخصيت کا احترام کرنا اپني جگہ پر ليکن احترام کے ساتھ ان کے فقہي نظريات اور افکار کو چيلنج کرنا دوسري چيز ہے، اور صرف خاص مواقع اور استفتاء کے علاوہ نادر اور غير ضروري فروعات کي گہرائي ميں جانے سے پرہيز کرنا، يہ سب اس فقہ کي نشو و نما اور رونق کے عوامل ميں سے ہيں.
آج کل ايک طرف سے علوم اور فنون کي ترقي اور دوسري طرف سے روابط ميں وسعت اور زندگيوں کے ايک دوسرے کے قريب آنے کي وجہ سے بہت سارے اہم فقہي سوالات نے جنم لي ہے جن کے مقابلے ميں صرف بعض کو جواب دينا يا باقي موضوعات کے بارے ميں صرف تعبد اور شريعت کي پابندي کا حوالہ دينا کافي نہيں ہے. اسي وجہ سے فقہاء کے لئے ضروري ہے کہ حقيقي اجتہاد کے ذريعے لوگوں کو قانع کر دينے والے جوابات کي طرف جانا چاہئے اور کھوج لگانے والے، حقيقت طلب اور تشنہ اذھان کو سيراب کريں. (البتہ معاند ذھنوں کا کوئي علاج نہيں).
ہمارا يہ عقيدہ ہے کہ اسلامي-شيعي فقہ ميں يہ صلاحيت ہے کہ ان سوالوں کا جواب دے سکے اور ان تمام سوالات اور مشکلوں کو حل کر سکتي ہے، ليکن اس ميں شرط يہ ہے کہ اجتہاد کے اصول کي پابندي کي جائے. يہاں پر ان اصول ميں سے بعض کو ذکر کرنا چاہتے ہيں جن کو عملي طور پر اجتہاد ميں مد نظر رکھا ہے اور اپنے تمام تحريروں ميں ان کو ملحوظ خاطر رکھا ہے:
اسلام کے تمام بزرگ فقہاء نے ہميشہ قرآن کريم کو فقاہت اور اجتہاد کا سب سے پہلا اور اہم منبع سمجھتے ہيں اور کبھي بھي اپنے فقہي استفتائات ميں اس سے غفلت نہيں کي. ہمارا عقيدہ يہي ہے کہ جتنا بھي يہ اہتمام زيادہ ہوگا اور آيات الھي ميں تفکر اور تعمق زيادہ گہرا ہوگا، اجتہاد صواب اور صحت کے زيادہ قريب تر ہوگا اور بہت سے غير قابل عمل اور قرآن ميں بتائي گئي سہولت اور يُسر کے مخالف فتاوا اور استنباط کا خاتمہ ہو جائے گا.
قرآن کريم بہت سي آيات ميں احکام کو بيان فرماتے ہوئے ان کي آساني (يعني يُسر)، اور دوسرے الفاظ ميں ان کے قابل عمل ہونے پر تأکيد فرماتا ہے. مثال کے طور پر اللہ تعالي نے چھ جگھوں پر قرآن کريم کو آسان بنانے کا ذکر فرمايا ہے:
«وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِر»[1]
اسي طرح راستہ بھي آسان بنا ديا ہے:
«ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ»[2]
اور قرآن کريم کي تلاوت[3] اور حج ميں قرباني دينے[4] کے بارے ميں بھي آساني کا تذکرہ فرمايا ہے. اور کلي طور پر ايک قانون کے طور پر فرمايا ہے:
«يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ»[5]
ہماري نظر ميں فقہي استنباطات کو پرکھنے کے لئے يسر اور عسر (آساني اور سختي) کو ايک پيمانہ اور معيار کے طور پر مد نظر رکھنا چاہئے. کيونکہ يہ کلام دائمي اور سب کے لئے جامع کلام ہے. اور اس کو اس طرح ہونا چاہئے کہ تمام ضروريات کو پورا کرنے کي صلاحيت رکھتي ہو. اس امر کو احکام ثانويہ اور اضطرار اور ضرورت کے عناوين سے امکان پذير بنانا اس کي تشريع کي اصلي حکمت کو بيان نہيں کر پاتي. لہذا احکام الھي اپني اوليہ تشريع ميں بھي مکمل ظرفيت کے ساتھ قابل عمل ہو سکتے ہيں اور صرف بعض خاص اور بہت نادر مواقع کے علاوہ ان ميں کوئي استثناء نہيں ہے اور يہي قرآن ميں بتائي گئي يسر کا معني ہے.
دين کي پہچان، اجتہاد اور فقاہت کي دوسري اہم سند، سنت ہے. جب تک فقيہ پورے غور سے روايات اور احاديث کا مطالعہ نہيں کر ليتا اس وقت تک اس کا اجتہاد مکمل نہيں ہو سکتا. ليکن کيونکہ اسلام کي اس طويل تاريخ ميں حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام کے کلام ميں مختلف وجوہات کي بنا پر جعل اور تحريف واقع ہوئي ہے، اسي لئے ان کي احاديث کي چھان بين کرنا، اجتہاد کے اہم ترين ارکان ميں سے ہے.
حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے ايک روايت ميں يوں ملتا ہے:
«قد كثرت علىّ الكذّابة و ستكثر، فمن كذب علىّ متعمّداً فليتبوّأ مقعده من النار...»[6]
ميرے بارے ميں جھوٹ بولنے والوں کي تعداد بہت ہو چکي ہے اور آنے والے زمانے ميں اس سے بھي بڑھے گي. جو جان بوجھ کر ميرے بارے ميں جھوٹ بنائے گا اس کا ٹھکانا آگ ہي ہو گا.
ائمہ معصومين (عليھم السلام) نے بھي مختلف تعابير سے اسي نکتے پر تأکيد فرمائي ہے، امام صادق عليھم السلام فرماتے ہيں:
«إنّا أهل بيت صادقون لا نخلو من كذّاب يكذب علينا و يسقط صدقنا بكذبه علينا عند الناس» [7]
ہم اہل بيت عليھم السلام سچا گھرانہ ہيں، جن کے بارے ميں دوسرے لوگ جھوٹ بناتے ہيں اور ان جھوٹوں کے ذريعے ہماي سيرت کو لوگوں کے درميان بگاڑنا چاہتے ہيں.
ہشام بن حکم کہتا ہے: ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمايا:
«لاتقبلوا علينا حديثاً إلاّ ما وافق القرآن والسّنة أو تجدون معه شاهداً من أحاديثنا المتقدّمة فإن المغيرة بن سعيد ـ لعنُه الله ـ دس فى كتب أصحاب أبى أحاديث لم يحدّث بها أبى، فاتّقوا الله ولاتقبلوا علينا ما خالف قول ربّنا تعالى و سنّة نبيّنا محمّد(صلى الله عليه وآله)»[8]
ہماري طرف سے کسي حديث کو اس وقت تک قبول مت کرنا جب تک کہ وہ قرآن کريم اور سنت سے مطابقت نہ رکھتي ہو يا ہماري سابقہ احاديث ميں سے اس پر کوئي شہادت موجود ہو. کيونکہ مغيرہ بن سعيد (لعنة اللہ عليہ) نے ہمارے والد گرامي کي طرف سے ايسي احاديث بيان کي ہيں جو کبھي بھي ہمارے والد کي زبان پر جاري نہيں ہوئيں. لہذا اللہ تعالي کا خوف کيا کرو اور کوئي بھي ايسي بات جو اللہ تعالي کي کلام اور حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي سنت سے مطابقت نہ رکھتي ہو، ہماري طرف منسوب نہ کيا کرو.
جعلي احاديث کي پہچان کا سب سے بہترين طريقہ يہ ہے کہ ان کے مضمون اور ان کے متن کو پرکھا جائے. يعني وہي چيز جس کو حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام نے فرمايا ہے کہ احاديث کو قرآن کريم کے ساتھ مطابقت رکھني چاہئے.
اس حديث ميں حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ قرآن اور سنت کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے والي کسي ايسي حديث کو بھي قبول نہ کريں جو ہماري طرف منسوب کي جا رہي ہو.
اہل سنت کے منابع ميں ايک حديث ملتي ہے جس ميں ابوہريرہ، حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے يوں نقل کرتا ہے:
«سيأتيكم عنّى أحاديث مختلفة فما جاءكم موافقاً لكتاب الله و لسنّتى فهو منّى و ما جاءكم مخالفاً لكتاب الله ولسنّتى فليس منّى»[9]
ايک ايسا زمانہ آئے گا جس ميں مجھ سے بہت قول آپ کے لئے بيان کئے جائيں گے، ان ميں سے جو قرآن اور ميري سنت کے مطابق ہوں گے وہ اقوال واقعي ميرے ہوں گے اور ايسے اقوال جو قرآن کريم اور ميري سنت سے مخالفت رکھتے ہوں گے وہ ميري طرف سے نہيں ہوں گے.
اس سلسلے ميں بہت سي دوسري روايات موجود ہيں ليکن ہم اتني مقدار پر اکتفا کرتے ہيں.
اس سلسلے ميں سند اور رجالي تحقيق کو بھي نہيں بھولنا چاہئے. ايک حديث کے صدور اور اس کے انتساب کے بارے ميں جاننے کے لئے علم رجال کا بہت کردار ہے. ليکن صرف اسي پر اکتفا کرنا، کبھي بھي مجتھد کو اپنے استنباط ميں لغزش اور خطا اور جعلي احاديث کے جال ميں پھنسنے سے نہيں روک سکتا. کيونکہ کوئي بھي کسي مشہور جھوٹے راوي کے نام سے احاديث کو جعل کر کے ان کو منتشر نہيں کرتا ہے. چنانچے جو لوگ نقلي نوٹ (پيسہ) بناتے ہيں ان کي کوشش ہوتي ہے کہ اس نوٹ کا رنگ اور اس کے شمائل اور صفات اصلي نوٹ کے مشابہ ہوں ورنہ نقلي نوٹ بہت جلدي پہچانا جاتا ہے.
ہمارا نظريہ يہي ہے کہ جتنا بھي فقہاء احاديث کے مضمون اور محتوا پر توجہ ديں گے، يعني احاديث کا قرآن سے مطابقت رکھنے اور اسي طرح قرآن کريم اور احاديث سے لئے گئے مسلّم اصولوں پر توجہ کريں گے، اتنا ہي ان کا اجتہاد صائب اور غلطي سے مبرا ہو گا.
حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ارشاد پاک ہے:
«رُبّ حامل فقه إلى من هو أفقه منه»[10]
بہت سے ايسے فقيہ ہيں جو اپنے سے زيادہ فقيہ کو فقہ منتقل کرتے ہيں. حضرت ختمي مرتبت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق، آراء ميں اختلاف اور صحيح يا صحيح تر فتاوا کا موجود ہونا ايک طبيعي اور عادي امر ہے اور اجتھاد کے دروازوں کے کھلا ہونے کا ثبوت ہے.
گذشتہ فقہاء کا ان کي کاوشوں اور فقہي ميراث کي حفاظت کي وجہ سے احترام کرنے کا يہ مطلب ہرگز نہيں کہ ان کے تمام فقہي نظريات اور افکار کو صحيح سمجھا جائے، ورنہ مسائل مستحدثہ (يعني جديد مسائل) کے علاوہ دوسرے تمام مسائل ميں اجتہاد کرنے کا کوئي فائدہ نہيں ہو گا. اسي طرح فقہاء کي سوجھ بوجھ کي شہرت کا بھي يہي حال ہے. يہ شہرت ان کي ذھانت کا قرينہ تو بن سکتي ہے ليکن مستقل طور پر اسے دليل کے طور پر نہيں مان سکتے. لہذا اگر اس کے بر خلاف کوئي دليل پيش ہو جائے تو مشہور کي رأي سے پلٹ کر دليل کي مقتضاء پر عمل کرنا ہو گا. اور وہ «شہرت قدماء» جس پر بہت سے عظيم فقہاء جيسا کہ اية اللہ العظمي بروجردي رحمہ اللہ تأکيد فرماتے تھے، وہ حديث کو صحيح طور پر حاصل کرنے اور اس کو صحيح طور پر سمجھنے کي حد تک ہے. يعني ايسي جگہ پر جس کے بارے ميں کوئي حديث بھي روائي متون ميں نہ ملے، وہاں پر يہ «شہرت قدمائي»، «اصول متلقات» (يعني ايسے اصول جو معصوم عليھم السلام سے منقول ہوں) ان ميں سے حديث کا حکم تلاش کر کے بيان کرے گي، البتہ اس کو سمجھنے ميں اجتہاد کي ضرورت ہے اور اس سے کسي حکم کا استنباط کرنا اجتہاد کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے.
فقہ جوہري اور روان فقہ جن پر حضرت امام خميني قدس سرہ کي کلام ميں بہت تأکيد ہوئي ہے، اجتہاد کي دو بنيادي اصول کي طرف نشاندھي کرتي ہے:
پہلي اصل يہ کہ فقہ اور اجتہاد کو حوزہ ھاي علميہ ميں متداول حدود اربعہ يعني وہي قرآن کريم اور سنت سے تجاوز نہيں کرنا چاہئے. فقہ سے اجنبي اور غير متعلقہ ذاتي افکار اور استنباطات اور اجتہاد پر نہيں ٹھوسنا چاہئے اور ان سے ذرہ برابر بھي عدول نہيں کرنا چاہئے. يہ وہي فقہ جوہري ہے، دوسري طرف سے اخباري ٹولے اور فھم و استنباط کے جمود ميں بھي مبتلا نہيں ہونا چاہئے، کيونکہ فقہ، انسانوں کے لئے ہے اور اس کي تمام زمانوں اور تمام نسلوں کي زندگيوں کے لئے ہے.
فقہ کو زندگي کے تمام مراحل اور اس پر حاوي ہونا چاہئے لہذا ايسے استنباط جن کي وجہ سے فقہ وسطي صديوں سے متعلق يا غير قابل عمل اور تہذيب اور ترقي کي مخالف، نظر آنے لگے، يہ سب فقہ کے لئے نقصان دہ ہيں. اجتہاد کا واقعي طور پر دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور فقيہ کو زمان اور مکان ميں حاضر ہونا چاہئے تا کہ زندگي ميں فقہ کے حضور کي ضمانت دي جا سکے اور يہي فقہ کے روان اور جاري ہونے کا معني ہے.
انہي اصول اور ان جيسے دوسرے اصول کي بنا پر «فقہ اور زندگي» کے نام سے کچھ مباحث کا سلسلہ وجود ميں لايا جا رہا ہے. اور ايسے مسائل کے بارے ميں بحث کي جائے گي جن کے بارے ميں اس زمانے ميں بہت سے اہم سوال پوچھے جا رہے ہيں يا ان کا شمار آج کي زندگي کے جديد مسائل ميں ہوتا ہے.
ان مباحث کے ہر شمارہ ميں، فقہي موضوعات ميں سے ايک موضوع کے بارے ميں بحث کي جائے گي اور اجتہادي روش اور طريقے سے اس کي جانچ پڑتال کريں گے. اس سلسلے کے پہلا مضمون، جديد اقتصاد کے مھم ترين مسائل يعني «توليدي ربا» کے لئے مختص کيا گيا ہے. جديد اور مترقي اقتصاد ميں بينکينگ ريڑھ کي ہڈي کا حکم رکھتي ہے جو دوسرے اقتصادي امور کو آپس ميں جوڑتي ہے اور بينکينگ ميں، سود (منافع) کو حياتي اور بنيادي حيثيت حاصل ہے.
«توليدي ربا» ايک نئي اصطلاح ہے جو بينک کے سسٹم ميں يا اس کے مشابہ دوسرے قرضوں ميں منافعوں کے لئے اس تحرير ميں مد نظر قرار دي گئي ہے اور اس کي فقہ کے رو سے تحقيق کي گئي ہے.
بہرحال کيونکہ عصمت صرف انبياء اور ائمہ معصومين عليھم السلام کے لئے ہي مختص ہے، اور ان ہستيوں کے علاوہ دوسرا کوئي بھي شخص غلطي اور خطا سے محفوظ نہيں ہے، لہذا يہ قلم بھي اجتہاد اور استنباط ميں اپنے آپ کو غلطيوں سے محفوظ نہيں سمجھتا. اہل نظر کي علمي تنقيدات اس کي قوت اور اتقان کا باعث بنيں گي.
و الحمد للہ.
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . سورة قمر، آيت 17. اسي طرح ديکھئے سورة قمر، 22، 32 اور 40; سورة مريم، آيت 97; سورة دخان، آيت 58
[2] . سورة عبس، آيت 20
[3] . سورة مزّمّل، آيت 20
[4] . سورة بقره، آيت 196
[5] . سورة بقره، آيت 185
[6] . بحارالأنوار، ج 2، ص 225 (ح 2) اور ج 50، ص 80 (ح6)
[7] . اختيار معرفة الرجال، ص 305 (ش 549); بحارالأنوار، ج 2، ص 217 (ح12)
[8] . اختيار معرفة الرجال، ص 212 (ش 401)؛ وسائل الشيعة، ج 8، ص 388 (ح 9)؛ بحارالأنوار، ج 2، ص249 ـ 250 (ح 62 ـ 64)
[9] . سنن الدار قطنى، ج 2، ص 122 (ح 4427)
[10] . الكافى، ج 1، ص 43 (ح 1)
اگلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org