Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: ب: روايات

ب: روايات بہت سي ايسي روايات موجود ہيں جو ربا کے حرام ہونے پر دلالت کرتي ہيں. جن ميں سے کچھ کو يہاں بيان کرتے ہيں.
1. وسائل الشيعہ ميں يوں آيا ہے:
«بلغ أبا عبدالله(عليه السلام) عن رجل أنَّه كان يأكل الربا و يسميه اللباء، فقال: لئن أمكننى الله منه لأضربن عنقه» [1]
حضرت امام صادق عليہ السلام کو خبر ملي کہ ايک شخص سود کھاتا ہے اور اس کو پہلا پہلا دودھ کہتا ہے. آپ نے فرمايا: اگر اللہ تعالي اس شخص تک ميري رسائي فراہم کرتا تو ميں اس کو جان سے مار ديتا»
2. حضرت رسالتمآب صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم، حضرت علي عليہ السلام کو مخاطب کر کے يوں فرماتے ہيں:
«يا على! الرّبا سبعون جزاءً فأيسرها مثل أن ينكح الرجل أُمه فى بيت الله الحرام» [2]
يا علي! ربا لينے کي ستر سزائيں ہيں، ان ميں سے آسان ترين سزا اس طرح ہے جيسے کسي شخص نے خانہ کعبہ ميں اپني ماں کے ساتھ بدفعلي کي ہو.
3. حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
«الربا سبعون باباً أهونها عند الله كالذى ينكح أُمه»[3]
ربا کي ستر قسم (کي سزائيں) ہيں، ان ميں آسان ترين سزا ايسي ہے جيسے کوئي شخص اپني ماں کے ساتھ زنا کرے.
4. حضرت امام صادق عليہ السلام کا ارشاد ہے:
«درھم واحد من ربا اعظم من عشرين زنية کلھا بذات محرم» [4]
ربا کا ايک درھم، اپنے محارم کے ساتھ، بيس مرتبہ زنا کرنے سے بھي بدتر ہے.
5. حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
«درهم ربا أشدّ عند الله من ثلاثين زنيّة كلّها بذات محرم مثل عمة و خالة» [5]
اللہ تعالي کے نزديک، ربا سے حاصل شدہ ايک درہم، اپنے محارم جيسے پھوپھي اور خالہ سے تيس مرتبہ زنا کرنے سے بھي زيادہ بدتر ہے.
6. حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ہے:
«درھم ربا عنداللہ اشد من سبعين زنية کلھا بذات محرم» [6]
ربا کا ايک درھم، اپنے محارم کے ساتھ، ستر مرتبہ زنا کرنے سے بھي بدتر ہے.
7. امام صادق عليہ السلام کا فرمان پاک ہے:
«درهم ربا أعظم عند الله من سبعين زنيّة كلّها بذات محرم فى بيت الله الحرام» [7]
ربا کا ايک درہم، اپنے محارم کے ساتھ خانہ کعبہ ميں ستر مرتبہ زنا کرنے سے بھي بدتر ہے. [8]
8. حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں:
«شر المکاسب، کسب الربا» [9]
لين دين ميں سب سے برا سودا وہ ہے جس ميں سود شامل ہو.
9. حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروي ہے:
«اخبث المکاسب، کسب الربا» [10]
خبيث ترين سودا وہ ہے جس ميں سود شامل ہو.
10. نبي کريم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ارشاد پاک ہے:
« ومَنْ أكل الرّبا ملأ الله بطنه من نار جهنّم بقدر ما أكل، وإن اكتسب (منه) مالاً لم يقبل الله منه شيئاً من عمله ولم يزل فى لعنة الله والملائكة ما كان عنه قيراط» [11]
جو شخص سود اور ربا ليتا ہو، اللہ تعالي اس کے پيٹ کو اس کے لئے ہوئے سود کے برابر جہنم کي آگ سے بھر دے گا. اور اگر رباخوري سے کوئي آمدني کمائي ہو تو اللہ تعالي اس کا کوئي نيک عمل قبول نہيں کرے گا، اور جب تک ربا کے مال ميں سے کچھ حصہ بھي اس کے ہاں موجود ہو گا، ہميشہ اللہ تعالي اور اس کے فرشتوں کي لعنت اس پر نازل ہوتي رہے گي.
11. حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
«اذا اراد اللہ بقوم ھلاکاً ظھر فيھم الربا» [12]
جب اللہ تعالي کسي قوم کو ھلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ان ميں ربا لينے کي رسم شروع ہو جاتي ہے.
فقہاء نے ان آيات اور روايات کو سند قرار ديتے ہوئے ربا کي دونوں قسموں (معاملاتي ربا اور قرضي ربا) کو مطلق طور پر حرام قرار ديا ہے اور اس پر فتوے ديے ہيں. انہوں نے ان دونوں مفروض معاملاتي اور قرضي ربا کي قسموں کے بارے ميں کوئي تفصيل بيان نہيں فرمائي ہے.
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . وسائل الشيعة، ج 18، ص 125 (ح 1)
[2] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 121- 122 (ح 12)
[3] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 123 (ح 18)
[4] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 119 (ح 6)
[5] . من لايحضرہ الفقيہ، ج 3، ص 174
[6] . من لايحضرہ الفقيہ، ج 3، ص 174
[7] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 123 (ح 19)
[8] . ربا کي برائي اور اس کي سزاؤں ميں جو اختلاف نظر آتا ہے، وہ روايت کو ارشاد فرمانے کے زمان اور اس کے مکان يعني ائمہ معصومين عليھم السلام کے زمانوں ميں فرق اور اسي طرح مخاطبين اور مختلف شرائط کي بنا پر ہو سکتا ہے.
[9] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 122 (ح 13)
[10] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 118 (ح 2)
[11] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 122 (ح 15)
[12] . وسائل الشيعہ، ج 18، ص 123 (ح 17)

اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org