Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: قتل کی دیت

قتل کی دیت سوال 796. ایک انسان کی کامل دیت کیا ہے؟
جواب: کامل دیت چھ چیزوں میں سے ایک ہے:
١. ایک ہزار بھیڑیں.
٢. مخصوص عمر کے سو اونٹ.
٣. سکہ دار ایک ہزار مثقال سونا.
۴. دس ہزار درہم کہ جس میں پانچ ہزار دوسو پچاس مثقال سکہ دار چاندی جو کہ رائج ہو.
٥. مخصوص عمر کی دو سو گائے ۶. دوسویمانی حلّہ کہ جس کی جگہ پردوسوکاٹ پینٹ کا اچھا کپڑا ہوتو کہا جاسکتا ہے کہ کافی ہی.

سوال ٧٩٧. کیا عمدی قتل کی دیت اورجو قتل عمدی ہونے کے مشابہ اس کی دیت میں پیسہ دیا جا سکتا ہی؟
جواب: دیت کی عینیت میں ظاہراً خصوصیت نہیں ہے بلکہ ہر جان کی قیمت کو پیسہ کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہی.

سوال 798. آیا قتل کی تمام اقسام (قتل عمد، قتل شبہ وقتل خطا) میں عورت کی دیت مرد کی دیت کے نصف ہی؟
جواب: میری نظر میں مرد اورعورت دونوں کی دیت، مطلقاً مساوی ہی « قضائً لاطلاق ادلة الدیة“ کیونکہ دیت کی تمام دلیلوں کے اطلاقات کا مقتضٰی اوران کو مقید کرنے پردلیل کا نہ ہونا قصاص کا مثل سے مثل کی صورت میں ہونا اور مرد کا عورت کو اور (اس کے برعکس) عورت کا مرد کوقتل کرنے کے قصاص میں کسی فرق کی عدم ضرورت دونوں پر ظلم واقع ہونے میں عدم تبعیض، اعضاءکی نسبت بھی لسان چہارگانہ ادلہ کے درمیان تعارض کا لحاظ، عمومات کی طرف رجوع جیسی «العین بالعین“آنکھ سے آنکھ کا قصاص، زخم کی صورت میں قصاص اوراعضاء کی دیت کی ادلہ کے اطلاقات بھی مماثلت اور مساوی ہونے کے مقتضی ہیں لہذا مرد وعورت کی دیت مساوی ہے اورقصاص کے مرحلہ میں بھی اعضاءکے قصاص کی طرح مماثل اورہمجنس ہونے کا لحاظ ہے کہ جس پر تجاوز اورظلم ہوا ہے وہ عضو میں بھی قصاص کا حق رکھتا ہے بغیر اس کے کہ دیت سے کسی چیز کا مقروض ہو.
اور ابان ابن تغلب کی صحیحہ کہ جس می متن کے اعتبار سے احادیث کے باب میں دلالت اظہر ہے اس لئے کہ اس کی ہر جہت سے تحقیق تدقیق ہوئی ہے قابل استدلال اور اعتماد نہیں ہے اورمجروح کرنے کے تاوان کے موارد کے لحاظ سے بھی جوکہ قصاص کے قابل نہیں ہے عورت ومرد کے درمیان فرق پرکوئی دلیل نہیں ہے اورقاعدہ ¿ ضمان جو جبران خسارت کا مقتضٰی ہے، دونوں کی نسبت مساوی ہے لہذا قاعدہ ضمان کے مطابق ماہرین کی تعیین کے مطابق نقصان پورا ہونا چاہئے لہذا حکومت اورتاوان کے تمام موارد میں نقصان کا پورا کیا جانا ثابت ہی. اوردیت”حر جو عبد فرض کر کے اس کی قیمت کو دیت قرار دیا جائی“سے قطع نظر کہ فی الحال اس کا امکان نہیں ہی، ناتمام ہے اور عیب پیدا کرنے کا تاوان کا مقائسہ کرنا، قیاس مع الفارق ہے اورہم اس بارے میں مفصل بحث کرچکے ہیںاورکیسے مقائسہ صحیح ہو سکتا ہے جب کہ کامل نفس کی دیت کی نسبت اعضاءکی دیت کسی طرح مساوی نہیں ہے بلکہ بعض اعضاءکی دیت نصف اوربعض کی دیت کامل ہے اوربعض کی دیت کم اوراس سے کم ہے حالانکہ ادھار فروخت ہونے کی صورت میں اس شئے کے اجزاءکی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے اورہرجزءکی اپنی الگ قیمت ہی.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org