Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: سودی قرض

سودی قرض مسئلہ ٥٠٢. سود دینا حرام ہے اور جیسا کہ صحیح اور معتبر احادیث میں آیا ہے کہ سود کا ایک درہم خانہ کعبہ کے پاس محارم کے ساتھ ٧٠ مرتبہ زنا کرنے سے بدتر ہے اور قرآن مجید نے سود خور کو قانونی طور پر خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کی حالت میں بتایا ہے.

مسئلہ ٥٠٣. اگر کوئی پیسہ لینا چاہتا ہے اور حرام سود دینا چاہتا ہے یا قرض دے کر حرام سود لینا چاہتا ہے تو وہ ان راہوں پر جو بعض مسائل کی کتابوں میں درج ہیں عمل کر کے فرار نہیں ہو سکتا اور حرام سود کے لئے کوئی راستہ ڈھونڈنا اس کے لئے کسی بھی صورت میں جواز نہیں بن سکتا جیسا کہ امام خمینی نے فرمایا ہے عرف میں جو سود حرام ہے اس کی حرمت کسی چالاکی اور بہانہ کے ساتھ سازگار نہیں اور سود کی حرمت میں تقویت کا باعث ہے اور جب کوئی بھی عاقل ایک ایسا قانون کہ جس کے متعلق اس قدر شدید حکم بیان ہوا ہو اس کو کسی چالاکی اور بہانہ کے ذریعہ جائز نہیں کر سکتا تو(خداوند) حکیم اس کام کو کیسے کر سکتا ہے؟

سوال ٥٠۴. بعض اسلامی ممالک میں قرض کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے استہلا کی(مصرفی) واستنتاجی(تولیدی) جسے تولیدی اور مصرفی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے یعنی کوئی بھی شخص اپنی زندگی گزارنے کے لئے یا اپنے لئے روٹی مہیا کرنا یا دیوالیہ پن اور مجبوری کے لئے قرض نہیں کرتا بلکہ یہ کہ اس سے نتیجہ حاصل کرے تجارت کرے یا گھر بنائے یا اس طرح کی کوئی چیز(کہ جس سے ایک نتیجہ حاصل کرنا ہے) یا اپنے سرمایہ کو زیادہ کرنے کے لئے قرض کرے تو کیا ربا(سود) کے باب میں تمام کے تمام وارد شرعی دلائل استہلا کی قرض کی طرف متوجہ ہیں اور استنتاجی قرض کو شامل نہیں ہیں اس کے متعلق جناب عالی کا نظریہ کیا ہے؟
جواب: استنتاجی قرض میں سود کا حرام نہ ہونا(جو کہ نہ صرف عام طور سے تجارت اور کاروبار کے لئے مانع نہیں ہے بلکہ ایک سالم معشیت اور بازار میں رونق کا باعث ہے)قوت سے خالی نہیں ہے گرچہ سود کی اس قسم میں کوئی حیلہ و بہانہ بنانے میں احتیاط کرنا زیادہ مطلوب ہے اور اس طرح استنتاجی اضافہ کو دیگر اضافوں کی طرح حرمت ربا(سود) کے ادلہ اپنے اندر شامل نہیں کرتے ہیں اور ربا کے لغوی اصطلاحی اور روانی معنی مطلق زیادتی کے ہیں اور یہ معنی قطعاً حرمت کی دلیلوں کا مقصود و مراد نہیں ہے بلکہ مراد خاص اضافہ ہے وہ بھی سود کی حرمت کے حکم، علل، قرائن اورشواھد جو کہ روایات اور آیات میں بیان ہوا ہے اور اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سب کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ سب اسی استہلا کی سود سے مختص ہے جو بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقروض حضرات اپنے قرض کی ادئیگی کے لئے نعوذ باللہ اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں سے ناجائز کاموں کو انجام دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کے متعلق معروف اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ سود کا ایک درھم محارم کے ساتھ ستر مرتبہ زنا سے بدتر ہے ظاہراً اسی مناسبت سے ایک تاریخ ہے.
خلاصہ یہ کہ قرض میں شرط اضافہ اور سود جو حرام اور ربا ہے وہ حرام سود ہے کہ جو معاشی کوشش کے لئے مانع ہو اس لئے روایات میں سود کی حرمت کی یہی علت بتائی گئی ہے علت جس طرح عمومیت بخشی ہے اسی طرح تخصیص بھی دیتی ہے اور اضافہ کی شرط کے ساتھ قرض دینا جو مقروض کے لئے معاشی لحاظ سے امور کی بہبودی اور سماج کی معشیت کو حرکت میں رکھتا ہے اس علت سے خارج ہے بالکل اس سودی قرض کے بر عکس جو نیاز اور زندگی کی ضرورت کو رفع کرنے کے لئے جو کہ سود خوار کے لئے ثروت جمع کرنے اور سود دینے والے کے لئے بد بخت ہونے کا راستہ ہے اسی لئے سود دینے والے کو صدقہ و خیرات دیا جائے تا کہ وہ سود میں گرفتار نہ ہو اس طرح کا سود قرض جو کہ اضافہ کی شرط کے ساتھ ہے حرام ہے اور خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کے حکم میں ہے.

سوال ٥٠٥. بعض افراد گھر کے لئے قرض لینے کی غرض سے بعض بینکوں میں کچھ رقم قرض الحسنہ کے طور پر رکھ دیتے ہیں تو کیا«ہر قرض جو منفعت کا باعث ہو وہ سود ہے» کے عموم کے تحت حرمت کا موجب ہے جبکہ طرفین نے بنا سی پر رکھی ہے؟
جواب: حرام نہیں ہے اور عموم مرقوم نبوی عامی ہے اور قرض میں اضافہ کر کے دینے کی حرمت استہلا کی قرضوں سے مخصوص ہے اور وہ عموم جو اپنے تمام افراد کی حرمت پر دلالت کرے وجود نہیں رکھتا.

سوال ٥٠۶. چند فیصد فائدہ جو بینکوں سے ملتا ہے کیا سود شمار ہو گا؟
جواب: اگر جمہوری اسلامی ایران کے بینکی آئین نامہ کے مطابق عمل کریں تو سود نہیں ہے.

سوال ٥٠٧. کیا قرض کی شرط(کہ کل آپ کو بھی مجھے قرض دینا ہو گا) کے ساتھ قرض دینا جائز ہے؟
جواب: قرض کی شرط کے ساتھ قرض دینا جائز ہے اور اضافہ کی شرط کے ساتھ قرض کی حرمت کے ادلہ سے اپنے اندر شامل نہیں کرتے.

سوال ٥٠٨. کیا رشتہ داروں اور اقرباءسے سود(ربا) لینا جائز ہے؟ باپ اور بیٹے کے درمیان کیا حکم ہے؟
جواب: استہلا کی ربا حرام ہے اور اس سلسلے میں باپ و بیٹے اور رشتہ داروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org